Surah

Information

Surah # 101 | Verses: 11 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 30 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَاَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِيۡنُهٗ ۙ‏ ﴿8﴾
اور جس کے پلڑے ہلکے ہونگے ۔
و اما من خفت موازينه
But as for one whose scales are light,
Aur jiss kay palry halky hongy
اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے ۔
( ۸ ) اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں ( ف۷ )
اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے4
اور جس شخص کے ( اعمال کے ) پلڑے ہلکے ہوں گے
سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 4 اسل میں لفظ موازین استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور میزان کی جمع بھی ۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالی کی نگاہ میں کوئی وزن نہ ہو ، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں ۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے ۔ پہلی صورت میں موازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری یا ہلکا ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالی کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابل قدر ہیں ۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب اللہ جل شانہ کی میزان عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے ، اور ان کے ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو ۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے ۔ بہرحال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے ، یا میزان کے معنی میں ، یا وزن کے معنی میں ، مدعا ایک ہی رہتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عدالت میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی اعمال کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے ، یا بے وزن ، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہوجاتا ہے ۔ سورہ اعراف میں ہے اور وزن اس روز حق ہوگا ، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے ، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے ( آیات ، 8 ۔ 9 ) سورہ کہف میں ارشاد ہوا اے نبی ان لوگوں سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا ، اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ( آیات 104 ۔ 105 ) سورہ انبیاء میں فرمایا قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخس پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ( آیت 47 ) ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازما جھکا دے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی نہ ہوگی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اس کا کوئی وزن ہو جس سے اس کی نیکی کا پلڑا جھک سکے ۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ان نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں کیں ۔ دوسری طرف اس کی جو بدی بھی ہوگی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی ۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جھکا ہوا ہے یا بدی کا ۔