Surah

Information

Surah # 102 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 16 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اَلۡهٰٮكُمُ التَّكَاثُرُۙ‏ ﴿1﴾
ز یادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا ۔
الهىكم التكاثر
Competition in [worldly] increase diverts you
Zeyadti ki chahat nay tumhein ghafil kerdia.
ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ( دنیا کا عیش ) حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غلفت میں ڈال رکھا ہے ۔ ( ١ )
( ۱ ) تمہیں غافل رکھا ( ف۳ ) مال کی زیادہ طلبی نے ( ف۳ )
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے ۔ 1
تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے ( آخرت سے ) غافل کر دیا
سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 1 اصل میں اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جاسکتا ہے ۔ الکھکم لہو سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں ، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں منہمک ہوکر دوسری اہم تر چیزوں سے غافل ہوجائے ۔ اس مادے سے جب الکاکم کا لفظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا جو اس سے اہم تر ہے ، ہوش باقی نہیں رہا ہے ۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے ، اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو ، اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کردیا ہے ۔ تکاثر کثرت سے ہے اور اس کے تین معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کریں ۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے ۔ پس اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ کے معنی ہوئے تکاثر نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کردیا ہے ۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور الھکم میں کس چیز سے غافل ہوجانا مراد ہے ، اور الھکم ( تم کو غافل کردیا ہے ) کے مخاطب کون لوگ ہیں ۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہوجاتا ہے ، تکاثر کے معنی محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش ، اسباب لذت ، اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جدوجہد کرنا ، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جاتانا اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الھکم کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہوجاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے ، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے اور دوسروں کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افارد پر بھی سوار ہے اور اقوام پر بھی ۔ اسی طرح اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کسی چیز سے غافل کردیا ہے ، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کردیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے ۔ وہ خدا سے غافل ہوگئے ہیں ۔ عاقبت سے غافل ہوگئے ہیں ۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے ہیں ۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں ۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے ، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے ۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے ، اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ مطلوب ہیں ، اس ہوس رانی میں غرق ہوکر وہ اس بات سے بالکل غافل ہوگئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے ۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت ، زیادہ سے زیادہ فوجیں ، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے ، اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ جارہی ہے ، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کردینے کا سروسامان ہے ۔ غرض تکاثر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالا تر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے ۔
مال و دولت اور اعمال: ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی ( ابن ابی حاتم ) حسن بصری فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم لو کان لابن ادم واد من ذھب یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کرسونا ہو اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے یہاں تک کہ الھا کم التکاثر نازل ہوئی مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال صر فوہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا صحیح مسلم شریف میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا بخاری کی حدیث میں ہے میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے گھر والے مال اور اعمال اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ حضرت صحاک نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا میرا فرمایا تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کرے حضرت احنف نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا انت للمال اذا امسکتہ فاذا انفقتہ فالمال لک یعنی جب تک تو مال کو لیے بیٹھا ہے تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کردے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائیگا ابن بریدہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کر چکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گذرا ہے وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخرو مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے چاہے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے ۔ حضرت قتادہ رحملہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مر گئے اور قبروں میں دفن ہوگئے صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا کوئی ڈر خوف نہیں انشاء اللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوگی تو اس نے کہا آپ اسے خوب پاکا بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبر تک پہنچا کر رہتا ہے آپ نے فرمایا اچھا پھریوں ہی سہی اس حدیث میں بھی لفظ تزیرہ القبور ہے اور یہاں قرآن میں بھی زرتم المقابر ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ترمذی میں ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قر کے بارے میں شک میں ہی ررہے یہ حدیث غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے میمون! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طر فخواہ دوزخ کی طرف ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہو جائیگا یہ مطلب یھ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کر لیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو انہی ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء علیہم السلام بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہوگی جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی بازپرس ہوگی صحت امن رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے چلے دیکھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا کہ اس وقت کیسے نکلے ہو کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے اتنے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آ گئے ان سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں پھر فرمایا کہ اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائیگا اور سائے دار جگہ بھی ہم نے کہا بہت اچھا پس آپ ہمیں لے کر ابو الہیشم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغ کے دروازہ پر آئے آپ نے سلام کیا اور اجازت چاہی ام ہیثم انصاریہ دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زیادہ سلامی کی دعا کرئیں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کر چکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے دئیے اب تو حضرت ابو الہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی آپ آئیے تشریف للے چلئے آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابو الہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں آپ تشریف لائیے انشاء اللہ آتے ہی ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں رونق افروز ہوئے اتنے میں ہی حضرت ابو الہیشم بھی آ گئے بیحد خوش ہوئے آنکھوں ٹھنڈک اور دل سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کر دینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں جب کھجوریں کھا چکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ ابو بکر عمر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور پوچھا کہ یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ دونوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ کہاں گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آہی گئے خوش ہوگئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ نے فرمایا چن کر الگ کر کے لاتے تو جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ نے فرمایا دیکھو ودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا چنانچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا پھر فرمانے لگے دیکھو بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد غلام حضرت ابو عسیب کا بیان ہے کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر حضور ابو بکر کو بلایا پھر حضرت عمر کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا لاؤ بھائی کھانے کو دو وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے پھر فرمایا ٹھنڈا پانی پلواؤ وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی حضرت عمر نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پر دے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہوگی ۔ آپ نے فرمایا ہاں صرف تین چیزوں کو تو پرسش نہیں ۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سرچھپانے کے لیے مکان ( مسند احمد ) کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ کہنے لگے ہم سے کس نعمت پر سوال ہو گا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں تلواریں گردنوں میں لٹک رہی ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آ جائیں گی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے ( مسند احمد ) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی شریف میں ہے نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائیگا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے؟ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ اس آیت ثم لتسئلن الخ کو سنا کر صحابہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں اور روایت میں ہے کہ امن اور صحت کے بارے میں سوال ہو گا پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا ۔ شہد پینے لذتیں حاصل کرنے صبح و شام کے کھانے ، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے جیسے قرآن کریم میں ہے ان اسلمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا ہر شخص سے اس کے کان اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہوگی لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں صحت اور فراغت یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں بزار میں ہے تہ بند کے سوا سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوال ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے؟ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ تکاثر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمدللہ ۔