Surah

Information

Surah # 102 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 16 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
ثُمَّ لَـتُسۡـَٔـلُنَّ يَوۡمَٮِٕذٍ عَنِ النَّعِيۡمِ‏ ﴿8﴾
پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا ۔
ثم لتسلن يومىذ عن النعيم
Then you will surely be asked that Day about pleasure.
Phir uss din tum say zarror bil-zaroor nematon ka sawal hoga.
پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ( کہ ان کا کیا حق ادا کیا ) ( ٣ )
( ۸ ) پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کی پرسش ہوگی ( ف۹ )
پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی ۔ 4 ؏١
پھر اس دن تم سے ( اﷲ کی ) نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا ( کہ تم نے انہیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے خرچ کیا تھا )
سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 4 اس فقرے میں پھر کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد جواب طلبی کی جائے گی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ خبر بھی ہم تمہیں دیے دیتے ہیں کہ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں یہ سوال کیا جائے گا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال عدالت الہی میں حساب لینے کے وقت ہوگا ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالی نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے وہ اس محاسبہ میں کامیاب رہیں گے ، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق اد نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا ۔ اس پر حضور نے فرمایا یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ( مسند احمد ، نسائی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، عبد بن حمید ، بیہقی فی الشعب ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہیثم بن التیہان انصاری کے ہاں چلیں ۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے ۔ انہوں نے لاکر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا ۔ حضور نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے؟ انہوں نے عرض کیا ، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں ۔ چنانچہ انہوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا ۔ فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہوگی ، یہ ٹھنڈا سایہ ، یہ ٹھنڈی کھجوریں ، یہ ٹھنڈا پانی ( اس قصے کو مختلف طریقوں سے ملسم ، ابن ماجہ ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر اور ابو یعلی وغیرہم نے حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں ان انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے ۔ اس قصے کو مختلف طریقوں سے متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے ، اور امام احمد نے ابو عسیب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے ۔ ابن حبان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا ) ۔ ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال صرف کفار ہی سے نہیں ، مومنین صالحین سے بھی ہوگا ۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اس نے ا نسان کو عطا کی ہیں ، تو وہ لا محدود ہیں ، ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو ان کی خبر بھی نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا پورا شمار نہیں کرسکتے ( ابراہیم ، 34 ) ان نعمتوں میں سے بے حدو حساب نعمتیں تو وہ ہیں جو اللہ تعالی نے براہ راست انسان کو عطا کی ہیں ، اور بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو انسان کو اس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں ۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں خرچ کیا ۔ اللہ تعالی کی براہ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اسے حساب دینا ہوگا کہ ان کو اس نے کس طرح استعمال کیا ۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل ، زبان اور عمل سے اس کا شکر ادا کیا تھا ؟ یا یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اسے اتفاقا مل گیا ہے؟ یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اس بنا پر انہیں معبود ٹھہرا لیا تھا اور انہی کے شکریے ادا کیے تھے؟