Surah

Information

Surah # 103 | Verses: 3 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 13 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلی آیت کے لفظ العصر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اگرچہ مجاہد ، قتادہ اور مقاتل نے اسے مدنی کہا ہے ، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اسے مکی قرار دیتی ہے اور اس کا مضمون یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب اسلام کی تعلیم کو مختصر اور انتہائی دل نشین فقروں میں بیان کیا جاتا تھا ، تاکہ سننے والے ایک دفعہ ان کو سن کر بھولنا بھی چاہیں تو نہ بھول سکیں ، اور وہ آپ سے آپ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جائیں ۔ موضوع اور مضمون : یہ سورت جامع اور مختصر کلام کا بے نظیر نمونہ ہے ۔ اس کے اندر چند جچے تلے الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے جس کو بیان کرنے کا حق ایک پوری کتاب میں بھی مشکل سے ادا کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں بالکل دو ٹوک طریقے سے بتا دیا گیا ہے کہ انسان کی فلاح کا راستہ کون سا ہے اور اس کی تباہی و بربادی کا راستہ کون سا ۔ امام شافعی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اگر لوگ اس سورت پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے ۔ صحابۂ کرام کی نگاہ میں اس کی اہمیت کیا تھی ، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حصن الدارمی ابو مدینہ کی روایت کے مطابق اصحاب رسول میں سے جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورۂ عصر نہ سنا لیتے حوالہ طبرانی ۔
مسیلمہ کذاب اور عمرو بن عاص میں مکالمہ: حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مسیلمہ کذاب سے ملے اس نے بنوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا عمرو کو دیکھ کر پوچھنے لگا کہو اس مدت میں تمہارے نبی پر بھی کوئی وحی نازل ہوئی ہے حضرت عمرو نے جواب دیا ایک مختصر سی نہایت فصاحت والی سورت اتری ہے پوچھا وہ کیا ہے حضرت عمر نے سورہ والعصر پڑھ کر سنا دی مسیلمہ ذرا دیر تو سوچتا رہا پھر کہنے لگا عمرو! دیکھو مجھ پر بھی اسی جیسی سورت اتری ہے عمرو نے کہا وہ کیا ؟ کہا یہ یا وبریا وبر انما انت اذنان وصدر وفسائر حضرنقر پھر کہنے لگا عمرو کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ عمرو نے کہا میراخیال تو خود ہی جانتا ہے کہ مجھے تیرے جھوٹا ہونے کا علم ہے ۔ وبربلی جیسا ایک جانور ہے اس کے دونوں کان ذرا بڑے ہوتے ہیں اور سینہ بھی باقی جسم بالکل حقیر اور واہیات ہوتا ہے اس کذاب نے ایسی فضول گوئی اور بکواس کے ساتھ اللہ کے کلام کا معارضہ کرنا چاہا جسے سن کر عرب کے بت پرست لوگوں نے بھی اس کا کاذب اور مفتری ہونا سمجھ لیا ۔ طبرانی میں ہے کہ دو صحابیوں کا یہ دستور تھا کہ جب ملتے ایک اس سورت کو پڑھتا وسرا سنتا پھر سلام کر کے رخصت ہو جاتے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت کافی ہے ۔