Surah

Information

Surah # 105 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 19 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِيۡلِؕ‏ ﴿1﴾
کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
الم تر كيف فعل ربك باصحب الفيل
Have you not considered, [O Muhammad], how your Lord dealt with the companions of the elephant?
Kia tu nay na dekha kay tery rab nay hathi walon kay sath kia kiya?
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟ ( ١ )
( ۱ ) اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کیا حال کیا ( ف۲ )
تم نے دیکھا نہیں 1 کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ 2
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا
سورة الفیل حاشیہ نمبر : 1 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر اصل مخاطب نہ صرف قریش بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے ۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر الم تر ( کیا تم نے نہیں دیکھا ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کرنا ہے ( مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں ۔ ابراہیم ، آیت 19 ۔ الحج 18 ۔ 65 ۔ النور 43 ۔ لقمان 29 ۔ 31 ۔ فاطر 27 ۔ الزمر 21 ) پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکہ اور اطراف مکہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ زمانہ نہیں ہوا تھا ، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا ۔ سورة الفیل حاشیہ نمبر : 2 یہاں اللہ تعالی نے کوئی تفصیل اس امر کی بیان نہیں کی کہ یہ ہاتھی والے کون تھے ، کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لیے آئے تھے ، کیونکہ یہ باتیں سب کو معلوم تھیں ۔
ابرہہ اور اس کا حشر: اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام ونشان مٹا دیا ۔ ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کرلیں برباد و غارت کردیا یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کردیا تھا قریباًبت پرست ہو گئے تھے انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ کی آمد آمد کی حضور علیہ السلام اسی سال تولد ہوئے اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے تو گویا رب العالم فرما رہا ہے کہ اے قریشیو! حبشہ کے اس لشکر پر تمھیں فتح تمھاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزمان پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے بڑھانے والے تھے ۔ غرض اصحاب فیل کا مختصر واقعہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور مطول واقعہ اصحاب الاخدود کے بیان میں گذر چکا ہے کہ قبیلہ حمیر کا آخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیا تھا جو سچے نصرانی تھے اور تعداد میں تقریباً بیس ہزار تھے سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے تھے صرف دوس ذو ثعلبان ایک بچ گیا تھا جو ملک شام جا پہنچا اور قیصر روم سے فریاد رسی چاہی ۔ یہ بادشاہ نصرانی مذہب پر تھا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کردو اس لیے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا ۔ اس بادشاہ نے ارباط اور ابو یکسوم ابرہہ بن صباح کو امیر لشکر بنا کر بہت بڑا لشکر دے کر دونوں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا یہ لشکر یمن پہنچا اور یمن کو اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کردیا ۔ ذونواس بھاگ کھڑا ہوا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا اور ان لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور سارے یمن پر شاہ حبشہ کا قبضہ ہو گیا اور یہ دونوں سردار یہاں رہنے سہنے لگے لیکن کچھ تھوڑی مدت کے بعد ان میں ناچاقی ہو گئی آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں نے آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لیے نکل آئے عام حملہ ہونے سے بیشتر ان دونوں سرداروں نے آپس میں کہا کہ فوجوں کو لڑانے اور لوگوں کو قتل کرانے کی کیا ضرورت ، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اور ایک دوسرے سے لڑ کر فیصلہ کرلیں جو زندہ بچ جائے ملک و فوج اس کی ۔ چنانچہ یہ بات طے ہو گئی اور دونوں میدان میں نکل آئے ارباط نے ابرہہ پر حملہ کیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے چہرہ خونا خون کردیا ناک ہونٹ اور منہ کٹ گیا ، ابرہہ کے غلام عتودہ نے اس موقعہ پر اریاط پر ایک بے پناہ حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ابرہہ زخمی ہو کر میدان سے زندہ واپس گیا ۔ علاج معالجہ سے زخم اچھے ہو گئے اور یمن کا یہ مستقل بادشاہ بن بیٹھا ۔ نجاشی حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور ایک خط ابرہہ کو لکھا اسے بڑی لعنت ملامت کی اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کو پامال کردوں گا ۔ اور تیری چوٹی کاٹ لاؤں گا ، ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھا اور قاصد کو بہت سارے ہدئیے دئیے اور ایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھر دی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دئیے ۔ اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اور لکھا کہ یہ یمن کی مٹی حاضر ہے اور چوٹی کے بال بھی ، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اور ناراضی معاف فرمائیے اس سے شاہ حبشہ خوش ہو گیا اور یہاں کی سرداری اسی کے نام کردی ، اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں یہاں یمن میں آپ کے لیے ایک ایسا گرجا تعمیر کررہاں ہو کہ اب تک دنیا میں ایسا نہ بنا ہو اور اس گرجا گھر کا بنانا شروع کیا بڑے اہتمام اور کروفر سے بہت اونچا بہت مضبوط بے حد خوبصورت اور منقش و مزین گرجا بنایا ۔ اس قدر بلند تھا کہ چوٹی تک نظر ڈالنے والے کی ٹوپی گر پڑتی تھی اسی لیے عرب اسے قلیس کہتے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا ۔ اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کہ لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں ، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرادی عدنانیہ اور قحطانیہ عرب کو یہ بہت برا لگا ادھرسے قریش بھی بھڑک اٹھے تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندر گھس گیا اور وہاں پاخانہ کرکے چلا آیا چوکیدار نے جب یہ دیکھا تو بادشاہ کو خبر پہنچائی اور کہا کہ یہ کام قریشیوں کا ہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیا ہے لہٰذا انہوں نے جوش اور غضب میں آکر یہ حرکت کی ہے ابرہہ نے اسی وقت قسم کھالی کہ میں مکہ پہنچوں گا اور بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اور ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چند ملے جلے نوجوان قریشیوں نے اس گرجا میں آ ۤگ لگا دی تھی اور اس وقت ہوا بھی بہت تیز تھی سارا گرجا جل گیا اور منہ کے بل زمین پر گر گیا اس پر ابرہہ نے بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک بڑا اونچا اور موٹا ہاتھی لیا جسے محمود کہا جاتا تھا ۔ اس جیسا ہاتھی اور کوئی نہ تھا شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا آٹھ یا بارہ ہاتھی اور بھی ساتھ تھے یہ کعبے کے ڈھانے کی نیت سے چلا یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گا اور ہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کو باندھ دوں گا ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑ سے گرا دیں گے ، جب اہل عرب کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو ان پر بڑا بھاری اثر ہوا انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ضرور اس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکیں گے ایک یمنی شریف سردار جو وہاں کے بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا جسے ذونفر کہا جاتا تھا یہ کھڑا ہوگیا اپنی قوم کو اور کل آس پاس کے عرب کو جمع کیا اور اس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا عربوں کو شکست ہوئی اور ذو نفر اس خبیث کے ہاتھ میں قید ہو گیا اس نے اسے بھی ساتھ لیا اور مکہ شریف کی طرف بڑھا خثم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچا تو یہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکر وں سے اس کا مقابلہ کیا لیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کر لیا اور نفیل بھی قید ہو گیا پہلے تو اس ظالم نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن پھر قتل نہ کیا اور قید کرکے ساتھ لے لیا تاکہ راستہ بنائے ، جب طائف کے قریب پہنچا تو قبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کرلی کہ ایسا نہ ہو ان کے بت خانوں کو جس میں لات نامی بت تھا یہ توڑ دے اس نے بھی ان کی بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے ابو رغال کو اس کے ساتھ کردیا کہ یہ تمھیں وہاں کا راستہ بتائے گا ۔ ابرہہ جب مکے کے بالکل قریب معمس کے پہنچا تو اس نے یہاں پڑاؤ کیا اس کے لشکر نے آس پاس مکہ والوں کے جو جانور اونٹ وغیرہ چر چگ رہے تھے سب کو اپنے قبضہ میں کیا ان جانوروں میں دوسو اونٹ تو صرف عبدالمطلب کے تھے اسود بن مقصود جو اس کے لشکر کے ہر اول کا سردار تھا اس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کو لوٹا تھا ، جس پر عرب شاعروں نے اس کی ہجو میں اشعار تصنیف کئے ہوئے ہیں جو سیرۃ ا بن اسحاق میں موجود ہیں ، اب ابرہہ نے اپنا قاصد حناطہ حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ مکہ کے سب سے بڑے سردار کو میرے پاس لاؤ اور یہ بھی اعلان کر دو کہ میں مکہ والوں سے لڑنے نہیں آیا میرا ارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کاہے ہاں اگر مکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تو لامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی ، حناطہ جب مکہ میں آیا اور لوگوں سے ملا جلا تو معلوم ہوا کہ یہاں کا بڑا سردار عبدالمطلب بن ہاشم ہے ، یہ عبدالمطلب سے ملا اور شاہی پیغام پہنچایا جس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہا واللہ نہ ہمارا ارادہ اس سے لڑنے کا ہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کا حرمت والا گھر ہے اس کے خلیل حضرت ابراہیم کی زندہ یادگار ہے اللہ اگر چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا ، ورنہ ہم میں تو ہمت و قوت نہیں ۔ حناطہ نے کہا اچھا تو آپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئے عبدالمطلب ساتھ ہوئے ، بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو ہیبت میں آگیا عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اور مضبوط قوی والے حسین و جمیل انسان تھے ، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اتر آیا اور فرش پر عبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ کیا چاہتا ہے ؟عبدالمطلب نے کہا میرے دو سو اونٹ جو بادشاہ نے لے لئے ہیں انہیں واپس کردیا جائے بادشاہ نے کہا ان سے کہہ دے کہ پہلی نظر میں تیرا رعب مجھ پر پڑا تھا اور میرے دل میں تیری وقعت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تو نے سب کچھ کھو دی اپنے دوسو اونٹ کی تو تجھے فکر ہے اور اپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکر نہیں میں تو تم لوگوں کا عبادت خانہ توڑنے اور اسے خاک میں ملانے کے لیے آیا ہوں ۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ سن بادشاہ اونٹ تو میرے ہیں اس لیے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ اللہ کا ہے وہ خود اسے بچالے گا اس پر یہ سرکش کہنے لگا کہ اللہ بھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا ، عبدالمطلب نے کہا بہتر ہے وہ جانے اور تو جان ، یہ بھی مروی ہے کہ مکہ نے تمام حجاز کا تہائی مال ابرہہ کو دینا چاہا کہ وہ اپنے اس بد ارادہ سے باز آئے لیکن اس نے قبول نہ کیا خیر عبدالمطلب تو اپنے اونٹ لے کر چل دئیے اور آکر قریش کو حکم دیا کہ مکہ بالکل خالی کردو پہاڑوں میں چلے جاؤ ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کر بیت اللہ میں آیا اور بیت اللہ کے دروازہ کا کنڈا تھام کر رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالیٰ ابرہہ اور اس کے خونخوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچا لے عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے ۔ لا ھم ان المرایم نع رحلہ فامنع رحالک لا یغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا محالک یعنی ہم بے فکر ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر والا اپنے گھر کا بچاؤ آپ کرتا ہے اے اللہ تو بھی اپنے گھر کو اپنے دشمنوں سے بچا یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان کی صلیب اور ان کی ڈولیں تیری ڈولوں پر غالب آجائیں ۔ اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گیا یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سو اونٹ بیت اللہ کے ارد گرد نشان لگا کر چھوڑ دئیے تھے اس نیت سے کہ اگر یہ بددین آئے اور انہوں نے اللہ کے نام کی قربانی کے ان جانوروں کو چھیڑا تو عذاب الٰہی ان پر اترے گا ، دوسری صبح ابرہہ کے لشکر میں مکہ جانے کی تیاریاں ہونے لگیں اپنا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا اسے تیار کیا لشکر میں کمر بندی ہو چکی تھی اور مکہ شریف کی طرف منہ اٹھا کرچلنے کی تیاری کی اس وقت نفیل بن حبیب جو اس سے راستے میں لڑا تھا اور اب بطور قیدی کے اس کے ساتھ تھا وہ آگے بڑھا اور شاہی ہاتھی کا کان پکڑ لیا اور کہا محمود بیٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں خیریت کے ساتھ چلا جاتواللہ تعالیٰ کے محترم شہر میں ہے یہ کہہ کر کان چھوڑ دیا اور بھاگ کر قریب کی پہاڑی میں جا چھپا ، محمود ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا ، اب ہزار جتن فیلبان کررہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں ، سر پر آنکس ماررہے ہیں ادھر ادھر سے بھالے اور برچھے ماررہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کر لئے لیکن ہاتھی جنبش بھی نہیں کرتا پھر بطور امتحان کے اس کا منہ یمن کی طرف کرکے چلانا چاہا تو جھٹ سے کھڑا ہو کر دوڑتا ہوا چل دیا شام کی طرف چلانا چاہاتو بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ گیا ، مشرق کی طرف لے جانا چاہا تو بھی بھاگا بھاگا گیا پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہاوہیں بیٹھ گیا ، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈ ا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی ، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہو گیا ، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا ۔ این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب اب جائے پناہ کہاں ہے ؟جبکہ اللہ خود تاک میں لگ گیا ہے سنو اشرم بدبخت مغلوب ہو گیا اب یہ پنپنے کا نہیں اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کاش کہ تو اس وقت موجود ہوتا جبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی ہے اور وادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تو اس وقت تو اس اللہ کے لشکر یعنی پرندوں کو دیکھ کر قطعاً سجدے میں گر پڑتا ہم تو وہاں کھڑے حمد رب کی راگنیاں الاپ رہے تھے گو کلیجے ہمارے بھی اونچے ہو گئے تھے کہ کہیں کوئی کنکری ہمارا کام بھی تمام نہ کر دے نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اور نفیل نفیل پکار رہے تھے ۔ گویا کہ نفیل پر ان کے باپ دادوں کا کوئی قرض تھا واقدی فرماتے ہیں یہ پرندے زرد رنگ کے تھے کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے ان کے پاؤں سرخ تھے اور روایت میں ہے کہ جب محمود ہاتھی بیٹھ گیا اور پوری کوشش کے باوجود بھی نہ اٹھا تو انہوں نے دوسرے ہاتھی کو آگے کیا اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی پیشانی پر کنکری پڑی اور بلبلا کر پیچھے ہٹا اور پھرا اور ہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے ادھر برابر کنکریاں آنے لگیں اکثر تو وہیں ڈھیر ہو گئے اور بعض جو ادھر ادھر بھاگ نکلے گا ان میں سے کوئی جانبر نہ ہوا بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کر گر تے جاتے تھے اور بالآخر جان سے جاتے تھے ابرہہ بادشاہ بھی بھاگا لیکن ایک ایک عضو بدن جھڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ خثعم کے شہروں میں سے صنعا میں جب وہ پہنچا تو بالکل گوشت کا لوتھڑا بنا ہوا تھا وہیں بلک بلک کر دم توڑا اور کتے کی موت مرا دل تک پھٹ گیا قریشیوں کو بڑ ا مال ہاتھ لگا ، عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پر کرلیا تھا ، زمین عرب میں آبلہ اور چیچک اسی سال پیدا ہوتے ہوئے دیکھے گئے اور اسی طرح سپند اور حنظل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے ہیں پس اللہ تعالیٰ بزبان رسول معصوم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی یہ نعمت یاد دلاتا ہے اور گویا فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم میرے گھر کی اسی طرح عزت و حرمت کرتے رہتے اور میرے رسول کو مانتے تو میں بھی اسی طرح تمھاری حفاظت کرتا اور تمھیں دشمنوں سے نجات دیتا ابابیل جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد لغت عرب میں پایا نہیں گیا ، سجیل کے معنی ہیں بہت ہی سخت اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اور گل سے یعنی مٹی اور پتھر غرض سجیل وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو ، عصف جمع ہے عصفۃ کی کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں ۔ ابابیل کے معنی ہیں گروہ گروہ جھنڈ بہت سارے پے در پے جمع شدہ ادھر ادھر سے آنے والے بعض نحوی کہتے ہیں اس کا واحد ابیل ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان پر ندوں کی چونچ تھی پرندوں جیسی اور پنجے کتوں جیسے عکرمہ فرماتے ہیں یہ سبز رنگ کے پرند تھے جو سمندر سے نکلے تھے ان کے سر درندوں جیسے تھے اور اقوال بھی ہیں یہ پرند باقاعدہ ان لشکریوں کے سروں پر پرے باندھ کر کھڑے ہو گئے اور پھر چیخنے لگے پھر پتھر کیا جس کے سر میں لگا اس کے نیچے سے نکل گیا اور دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا جس کے جس عضو پر گرا وہ عضو ساقط ہو گیا ساتھ ہی تیز آندھی آئی جس سے اور آس پاس کے کنکر بھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اور سب تہہ و بالا ہوگئے عصف کہتے ہیں چارے کو اور کٹی کھیتی کو اور گیہوں کے درخت کے پتوں کو اور ماکول سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ عصف کہتے ہیں بھوسی کو جوا ناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے ابن زید فرماتے ہیں مراد کھیتوں کے وہ پتے ہیں جنھیں جانور چرچکے ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو تہس نہس کردیا اور عام خاص کو ہلاک کر دیا اس کی ساری تدبیریں الٹ ہو گئیں کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی ایسا بھی کوئی ان پر صحیح سالم نہ رہا جو کہ ان کی خبر پہنچائے ، جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جاں بر نہ ہو سکا ، خود بادشاہ بھی گو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا تھا جوں توں صنعا میں پہنچالیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا کہ مر گیا ، اس کے بعد اسکا لڑکا یکسو یمن کا بادشاہ بنا پھر اس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی اب سیب بن ذویزن حمیری کسریٰ کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ وہ اہل حبشہ سے لڑے اور یمن ان سے خالی کرالے کسریٰ نے اس کے ساتھ ایک لشکر جرار کردیا اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کے خاندان سے سلطنت نکل گئی اور پھر قبیلہ حمیر یہاں کا بادشاہ بن گیا عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چاروں طرف سے مبارکبادیاں وصول ہوئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے فیلبان اور چرکٹے کو میں نے مکہ شریف میں دیکھا دونوں اندھے ہو گئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھے اور بھیک مانگا کرتے تھے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اساف اور نائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اور لوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیلبان کا نام انیسا تھا ، بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خواد اس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکر کو بہ ماتحتی شمس بن مقصود کے بھیجا تھا یہ لشکر بیس ہزار کا تھا اور یہ پرند ان کے اوپر رات کے وقت آئے تھے اور صبح تک ان سب کا ستیا ناس ہو چکا تھا لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ خود ابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکر لے کر آیا تھایہ ممکن ہے کہ اس کے ہراول کے دستہ پر یہ شخص سردر ہو ، اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیا ہے ، سورہ فتح کی تفسیر میں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کرآئے ہیں جس میں ہے کہ جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پر جانیو الے تھے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایا یہ تھکی نہ اس میں اڑنے کی عادت ہے اسے اس اللہ نے روک لیاہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکے والے جن شرائط پر مجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو پھر آپ نے اسے ڈانٹا تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوگی ۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم کی اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیا اور اپنے نبی کو وہاں کا قبضہ دیا اور اپنے ایماندار بندوں کو ، سنو آج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کر آگئی ہے جیسے کل تھی ، خبر دار ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورہ فیل کی تفسیر ختم ہوئی ۔