Surah

Information

Surah # 105 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 19 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
تَرۡمِيۡهِمۡ بِحِجَارَةٍ مِّنۡ سِجِّيۡلٍۙ‏ ﴿4﴾
جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔
ترميهم بحجارة من سجيل
Striking them with stones of hard clay,
Jo unhein mitti or pather ki kankariyan mar rahy thy.
جو ان پر پکی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے ۔
( ٤ ) کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے ( ف٤ )
جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے ، 6
جو ان پر کنکریلے پتھر مارتے تھے
سورة الفیل حاشیہ نمبر : 6 اصل الفاظ ہیں بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ، یعنی سجیل کی قسم کے پتھر ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گل کا معرب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہوگیا ہو ۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ سورہ ہود آیت 82 اور سورہ حجر آیت 74 میں کہا گیا ہے کہ قوم لوط پر سجیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے ، اور انہی پتھروں کے متعلق سورہ ذاریات آیت 33 میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حجارۃ من طین ، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے ۔ مولانا حمید الدین فراھی مرحوم ، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے ، اس آیت میں ترمیہم کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے ، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں ۔ اس تاویل کے لیے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب کا ابرھہ کے پاس جاکر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے ، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے ، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھپے ہوں ۔ اس لیے صورت واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے ، اور اللہ تعالی نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا ، پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے ۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں ، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبدالمطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنے گئے تھے ، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے ۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ 60 ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا ، وہ تو غزوہ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی ، پھر بھلا وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کرسکتے تھے ۔ تاہم ان ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف سورہ فیل کی ترتیب کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اس کے خلاف پڑتی ہے ۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے ، اور اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے ، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ ( تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ، پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ، اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے ) لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے ، پھر اس کے متصلا بعد تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ( جو ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ) فرمایا ہے اور آخر میں کہا کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ۔