Surah

Information

Surah # 106 | Verses: 4 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 29 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
لِاِيۡلٰفِ قُرَيۡشٍۙ‏ ﴿1﴾
قریش کے مانوس کرنے کے لئے ۔
لايلف قريش
For the accustomed security of the Quraysh -
Quresh kay manoos kerney kay liye.
چونکہ قریش کے لوگ عادی ہیں ۔
( ۱ ) اس لیے کہ قریش کو میل دلایا ( ف۲ )
چونکہ قریش مانوس ہوئے 1
قریش کو رغبت دلانے کے سبب سے
سورة القریش حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ۔ ایلاف الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے ، مانوس ہونے ، پھٹنے کے بعد مل جانے ، اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں ۔ اردو زبان میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں ۔ ایلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجب کے معنی میں ہے ۔ مثلا عرب کہتے ہیں کہ لزید و ما صنعنا بہ ، یعنی ذرا اس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ۔ پس لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوگئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے روگردانی کر رہے ہیں ۔ یہ رائے اخفش ، کسارئی ، اور فراء کی ہے ، اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھتی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے ۔ بخلاف اس کے خلیل بن احمد ، سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ سے ہے ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے ، کیونکہ یہ بجائے خود ان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔
امن و امان کی ضمانت: موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورہ فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکے جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف ، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ تو گویا یوں فرمایا جارہاہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36؀ ) 13- الرعد:36 ) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا ناہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا ، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بے امنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢؁ ) 16- النحل:112 ) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قریشیو! تمھیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمھیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ ۔ الحمد اللہ سورہ قريش کی تفسیر ختم ہوئی ۔