Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اِنَّكُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِكُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡآ اِلٰى بَارِٮِٕكُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ عِنۡدَ بَارِٮِٕكُمۡؕ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿54﴾
جب ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم !سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو ، اپنے کو آپس میں قتل کرو ، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے ، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی ، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ۔
و اذ قال موسى لقومه يقوم انكم ظلمتم انفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارىكم فاقتلوا انفسكم ذلكم خير لكم عند بارىكم فتاب عليكم انه هو التواب الرحيم
And [recall] when Moses said to his people, "O my people, indeed you have wronged yourselves by your taking of the calf [for worship]. So repent to your Creator and kill yourselves. That is best for [all of] you in the sight of your Creator." Then He accepted your repentance; indeed, He is the Accepting of repentance, the Merciful.
Jab ( hazrat ) musa ( alh-e-salam ) ney apni qom say kaha kay aey meri qom! bachray ko mabood bana ker tum ney apni janon per zulm kiya hai abb tum apney peda kerney walay ki taraf rujoo kero apney ko aapas mein qatal kero tumhari behtri Allah Taalaa kay nazdeek issi mein hai to uss ney tumhari tauba qabool ki woh tauba qabool kerney wala aur reham-o-karam kerney wala hai.
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ اے میری قوم ! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس طرح اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ بے شک وہی ہے جو اتنا معاف کرنے والا ، اتنا رحم کرنے والا ہے
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردو ( ف۹۰ ) یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔ ( ف ۹۱ )
یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام ﴿یہ نعمت لیے ہوئے پلٹے ، تو اس ﴾ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو ، ’’تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے ، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو 70 ، اسی میں تمہارے خالِق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے‘‘ ۔ اس وقت تمہارے خالِق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! بیشک تم نے بچھڑے کو ( اپنا معبود ) بنا کر اپنی جانوں پر ( بڑا ) ظلم کیا ہے ، تو اب اپنے پیدا فرمانے والے ( حقیقی رب ) کے حضور توبہ کرو ، پس ( آپس میں ) ایک دوسرے کو قتل کر ڈالو ( اس طرح کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی اور اپنے دین پر قائم رہے ہیں وہ بچھڑے کی پرستش کر کے دین سے پھر جانے والوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیں ) ، یہی ( عمل ) تمہارے لئے تمہارے خالق کے نزدیک بہترین ( توبہ ) ہے ، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرما لی ، یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :70 یعنی اپنے ان آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی ۔
سخت ترین سزا یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا ۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی ۔ یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو ۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی ۔ تلواریں نیزے چھرے اور جھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں ، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تو اب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔