Surah

Information

Surah # 107 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 17 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Only 1-3 from Makkah; the rest from Madina
اَرَءَيۡتَ الَّذِىۡ يُكَذِّبُ بِالدِّيۡنِؕ‏ ﴿1﴾
کیا تو نے ( اسے بھی ) دیکھا جو ( روز ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
ارءيت الذي يكذب بالدين
Have you seen the one who denies the Recompense?
Kiya tu nay ( ussay bhi ) dekha jo ( roz ) jaza ko jhutlata hai?
کیا تم نے اسے دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟
( ۱ ) بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے ( ف۲ )
تم نے دیکھا 1 اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا 2 کو جھٹلاتا ہے 3 ؟
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 1 تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموما ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے ۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ، اور اس کا مطلب جاننا ، سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جانتا ہوں یا مجھے خبر ہے ۔ یا مثلا ہم کہتے ہیں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھو اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو ۔ پس اگر لفظ اَرَءَيْتَ کو اس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ یا تم نے غور کیا اس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ؟ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 2 اصل میں يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فرمایا گیا ہے ۔ الدین کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دین اسلام کے لیے بھی ۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلہ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں ۔ ابن عباس نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اکثر مفسرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر پہلی معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کا مدعا دینا سلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا ۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہوگا کہ اسلام اس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 3 انداز کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس سوال سے بات کا آغاز کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں ، بلکہ سامع کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جازا و سزا کا انکار آدم میں کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے ، اور اسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں تاکہ وہ ایمان بالآخرۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے ۔
نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے ( كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ 17۝ۙ ) 89- الفجر:17 ) یعنی جو برائی تمھیں پہنتی ہے وہ تمھارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو یعنی اس فققیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے ویل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی حضرت ابن عباس کے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابو الضحی کہتے ہیں حضرت عاء بن دینا فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عن صلوتھم ہے فی صلوتھم نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا اسی طرح یہ الف ظشامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشو و خضو اور تدبر و غروفکر نہ کرے لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ ویل ہے اور نفاق عملی کا حقو دار ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے یہاں مراد عصر کی نماز ہے ججو صلوہ وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکاں ہے انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز گذارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسنا غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے امام حاکم کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کمی قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں حضرت علی سے ماعون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر سے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ماعون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیکی چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ماعون سے تعبیر کرتے تھے غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے آپنے فرمایا ماعون سے منع کرنا انہوں نے پوچھا ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہا پانی انہوں نے پوچھا لوہے سے مراد کونسا لوہا ہے؟ فرمایا یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا یہی دیگچی وغیرہ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہ اور اسی جیسی اور چیزیں واللہ اعلم الحمد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔