سورة الماعون حاشیہ نمبر : 1
تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموما ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے ۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ، اور اس کا مطلب جاننا ، سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جانتا ہوں یا مجھے خبر ہے ۔ یا مثلا ہم کہتے ہیں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھو اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو ۔ پس اگر لفظ اَرَءَيْتَ کو اس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ یا تم نے غور کیا اس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ؟
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 2
اصل میں يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فرمایا گیا ہے ۔ الدین کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دین اسلام کے لیے بھی ۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلہ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں ۔ ابن عباس نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اکثر مفسرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر پہلی معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کا مدعا دینا سلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا ۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہوگا کہ اسلام اس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے ۔
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 3
انداز کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس سوال سے بات کا آغاز کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں ، بلکہ سامع کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جازا و سزا کا انکار آدم میں کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے ، اور اسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں تاکہ وہ ایمان بالآخرۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے ۔