Surah

Information

Surah # 107 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 17 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Only 1-3 from Makkah; the rest from Madina
فَذٰلِكَ الَّذِىۡ يَدُعُّ الۡيَتِيۡمَۙ‏ ﴿2﴾
یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۔
فذلك الذي يدع اليتيم
For that is the one who drives away the orphan
yehi who hai jo yateem ko dhakkay deta hai
وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۔ ( ١ )
( ۲ ) پھر وہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ( ف۳ )
وہی تو ہے 4 جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ، 5
تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ( یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے )
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 4 اصل میں فَذٰلِكَ الَّذِيْ فرمایا گیا ہے ۔ اس فقرے میں ف ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نہیں جانتے تو تمہیں معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو یا پھر یہ اس معنی میں ہے کہ اپنے اسی انکار آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 5 اصل میں يَدُعُّ الْيَتِيْمَ کا فقرہ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھاتا ہے اور اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہا پنی پریشان حالی کی بنا پر رحم کی امید لیے ہوئے کھڑا رہے تو اسے دھکے دے کر دفع کردیتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے ، مثلا اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں سارے گھر کی خدمتگاری کرنے اور بات بات پر چھڑکیاں اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ علاوہ بریں اس فقرے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ اس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویہ یہی ہے ۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی برا کام ہے جو وہ کر رہا ہے ۔ بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بے بس اور بے یارومددگار مخلوق ہے ، اس لیے کوئی ہرج نہیں اگر اس کا حق مار کھایا جائے ۔ یا اسے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنا کر رکھا جائے یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اسے دھتکار دیا جائے ۔ اس سلسلے میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں لکھا ہے ۔ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا ۔ وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دیدے ۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر کار مایوس ہوکر پلٹ گیا ۔ قریش کے سرداروں نے ازا راہ شرارت اس سے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاکر شکایت کر ، وہ ابو جہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے ۔ بچہ بے چارہ ناواقف تھا کہ ابو جہل کا حضور سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں ، وہ سیدھا حضور کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ سے بیان کیا ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بد ترین دشمن ابو جہل کے ہاں تشریف لے گئے ۔ آپ کو دیکھ کر اس نے آپ کا استقبال کیا اور جب آپ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق اسے دے دو ، تو وہ فورا مان گیا اور اس کا مال لاکر اسے دے دیا ۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ان دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے ۔ وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے ۔ مگر جب انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہوکر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم ، میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا ، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی ، اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بے یارو مددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اس اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا ۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 146 پر نقل کرچکے ہیں ، جو حضور کے اس زبردست اخلاقی رعب پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے کفار قریش آپ کو جادوگر کہتے تھے ۔