Surah

Information

Surah # 107 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 17 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Only 1-3 from Makkah; the rest from Madina
وَ لَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الۡمِسۡكِيۡنِؕ‏ ﴿3﴾
اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔
و لا يحض على طعام المسكين
And does not encourage the feeding of the poor.
Aur miskeen ko khilaney ki targeeb nahi deta.
اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا ۔ ( ٢ )
( ۳ ) اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا ( ف٤ )
اور مسکین کا کھانا 6 دینے پر نہیں اکساتا ۔ 7
اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ( یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا )
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 6 اِطعَامِ الْمِسْكِيْنِ نہیں بلکہ طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اگر اطعام مسکین کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا ۔ لیکن طعام المسکین کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا ۔ بالفاظ دیگر جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے ، وہ اس کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے ، اور دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کا حق ادا کر رہا ہے ، یہی بات ہے جو سورہ ذاریات آیت 19 میں فرمائی گئی ہے کہ وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 7 لَا يَحُضُّ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اس کام پر آمادہ نہیں کرتا ، اپنے گھر والوں کو بھی یہ نہیں کہتا کہ مسکین کا کھانا دیا کریں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بات پر اکسا تاکہ معاشرے میں جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے حقوق پہچانیں اور اکی بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں ۔ یہ اللہ تعالی نے صرف دو نمایاں ترین مثالیں دے کر دراصل یہ بتایا ہے کہ انکار آخرت لوگوں میں کسی قسم کی اخلاقی برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ اصل مقصود ان دو ہی باتوں پر گرفت کرنا نہیں ہے کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ یتیموں کو دھتکارتے ہیں اور مسکینوں کا کھانا دینے پر نہیں اکساتے ۔ بلکہ جو بے شمار خرابیاں اس گمراہی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں ان میں سے دو ایسی چیزیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اگر یہی شخص خدا کے حضور اپنی حاضری اور جواب دہی کا قائل ہوتا تو اس سے ایسی کمینہ حرکتیں سرزد نہ ہوتیں کہ یتیم کا حق مارے ، اس پر ظلم ڈھائے ، اس کو دھتکارے ، اور مسکین کو نہ خود کھلائے نہ کسی سے یہ کہے کہ اس کا کھانا اس کو دو ۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں کے اوصاف تو وہ ہیں جو سورہ عصر اور سورہ بلد میں بیان کیے گئے ہیں کہ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ( وہ ایک دوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں ) اور وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ( وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں ) ۔