Surah

Information

Surah # 107 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 17 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Only 1-3 from Makkah; the rest from Madina
الَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ صَلَاتِهِمۡ سَاهُوۡنَۙ‏ ﴿5﴾
جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔
الذين هم عن صلاتهم ساهون
[But] who are heedless of their prayer -
Jo apni namaz say ghafil hain.
جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ۔ ( ٣ )
( ۵ ) جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں ( ف۵ )
جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، 9
جو اپنی نماز ( کی روح ) سے بے خبر ہیں ( یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں )
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 9 فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں کہا گیا بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کہا گیا ہے ۔ اگر فی سلوتہم کے الفاظ استعمال ہوتے تو مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی نماز میں بھولتے نہیں ۔ لیکن نماز پڑھتے پڑھتے کچھ بھول جانا شریعت میں نفاق تو درکنار گناہ بھی نہیں ہے ، بلکہ سرے سے کوئی عیب یا قابل گرفت بات تک نہیں ہے ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی وقت نماز میں بھول لاحق ہوئی ہے ۔ اور حضور نے اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو کا طریقہ مقرر فرمایا ہے ۔ اس کے برعکس عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی نماز سے غافل ہیں ۔ نماز پڑھی تو اور نہ پڑھہ تو ، دونوں کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ۔ پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں اور جب وہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتے ہیں ۔ یا نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بے دلی کے ساتھ اٹھتے ہیں اور بادل ناخواستہ پڑھ لیتے ہیں جیسے کوئی مصیبت ہے جو ان پر نازل ہوگئی ہے ۔ کپڑوں سے کھیلتے ہیں ، جمائیاں لیتے ہیں ، خدا کی یاد کا کوئی شائبہ تک ان کے اندر نہیں ہوتا ۔ پوری نماز میں نہ ان کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور نہ یہ خیال رہتا ہے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے ۔ پڑھ رہے ہوتے ہیں نماز اور دل کہیں اور پڑا رہتا ہے ۔ مارا مار اس طرح پڑھتے ہیں کہ نہ قیام ٹھیک ہوتا ہے نہ رکوع نہ سجود ۔ بس کسی نہ کسی طرح نماز کی سی شکل بنا کر جلدی سے جلدی فارغ ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور بہت سے لوگ تو ایسے ہیں کہ کسی جگہ پھنس گئے تو نماز پڑھ لی ، ورنہ اس عابدت کا کوئی مقام ان کی زندگی میں نہیں ہوتا ، نماز کا وقت آتا ہے تو انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ نماز کا وقت ہے ۔ موذن کی آواز کان میں آتی ہے تو انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ یہ کیا پکار رہا ہے ، کس کو پکار رہا ہے اور کس لیے پکار رہا ہے ۔ یہی آخرت پر ایمان نہ ہونے کی علامات ہیں ۔ کیونکہ دراصل اسلام کے مدعیوں کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ نہ نماز پڑھنے پر کسی جزا کے قائل ہیں اور نہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ کے نہ پڑھنے پر کوئٰ سزا ملے گی ۔ اسی بنا پر حضرت انس بن مالک اور عطا بن دینار کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے اس نے فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ فرمایا ۔ یعنی ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہوگا ۔ قرآن مجید میں منافقین کی اس کیفیت کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ ۔ وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کسمساتے ہوئے اور ( اللہ کی راہ میں ) خرچ نہیں کرتے مگر بادل ناخواستہ ( التوبہ 54 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تلک صلوۃ المنافق ، تلک صلوۃ المنافق ، تلک صلوۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فقر اربعا لا یذکر اللہ فیھا الا قلیلا یہ منافق کی نماز ہے یہ منافق کی نماز ہے ، یہ منافق کی نماز ہے ، عصر کے وقتبیٹحا سورج کو دیکھتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ( یعنی غروب کا وقت آجاتا ہے ) تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے جن میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے ۔ ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ) حضرت سعد بن ابی وقاص سے ان کے صاحبزادے مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا جو نماز سے غفلت برتتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں ۔ ( ابن جریر ، ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ۔ ) یہ روایت حضرت سعد کے اپنے قول کی حیثیت سے بھی موقوفا نقل ہوئی ہے اور اس کی سند زیادہ قوی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حیثیت سے اس کی مرفوعا روایت کو بیہقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیا ہے ) حضرت مصعب کی دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا کہ اس آیت پر آپ نے غور فرمایا ؟ کیا اس کا مطلب نماز کو چھوڑ دینا ہے؟ یا اس سے مراد نماز پڑھتے پڑھتے آدمی کا خیال کہیں اور چلا جانا ہے؟ خیال بٹ جانے کی حالت ہم میں سے کسی پر نہیں گزرتی؟ انہوں نے جواب دیا نہیں ، اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ، ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ) اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نماز میں دوسرے خیالات کا آجانا اور چیز ہے اور نماز کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہونا اور اس میں ہمیشہ دوسری باتیں ہی سوچتے رہنا بالکل دوسری چیز ۔ پہلی حالت تو بشریت کا تقاضا ہے ، بلا ارادہ دوسرے خیالات آ ہی جاتے ہیں ، اور مومن کو جب بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ نماز سے اس کی توجہ ہٹ گئی ہے تو وہ پھر کوشش کر کے اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ دوسری حالت نماز سے غفلت برتنے کی تعریف میں آتی ہے ، کیونکہ اس میں آدمی صرف نماز کی ورزش کرلیتا ہے ، خدا کی یاد کوئی ارادہ اس کے دل میں نہیں ہوتا ، نماز شروع کرنے سے سلام پھیرنے تک ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ، اور جن خیالات کو لیے ہوئے وہ نماز میں داخل ہوتا ہے انہی میں مستغرق رہتا ہے ۔