سورة الکافرون حاشیہ نمبر :1
اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں:
( ۱ ) حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں ، لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے کہ حتی کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دین کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اسی طرح اپنی براءت کا اظہار کردے ۔ پس لفظ قُل ( کہہ دو ) کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر حکم حضور کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے ۔
( ۲ ) کافر کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہو ، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے ( Unbeliever ) کے ہیں ، اور اس کے مقابلے میں مومن کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے ( Believer ) کے لیے بولا جاتا ہے ، لہذا اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اے کافرو دراصل اس معنی میں ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کیا ہے ۔ اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے ۔
( ۳ ) اے کافرو کہا ہے ، اے مشرکو نہیں کہا ، اس لیے مخاطب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ، اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جل شانہ کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے ، خواہ وہ یہود ہوں ، نصاری ہوں ، مجوسی ہوں ، یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں ۔ اس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔
( ۳ ) منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو یا اے مخاطبو کہہ کر مخاطب کیں ۔ اس طرح کا خطاب دراصل مخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی صفت دشمنی اور صفت مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک ان میں یہ صفت باقی رہے ۔ اگر ان میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے ، یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اس خطاب کا مخاطب نہیں رہتا ۔ بالکل اسی طرح جن لوگوں کو اے کافرو کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، وہ بھی ان کی صفت کفر کے لحاظ سے نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے ، ان میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہوگا ، لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اس کا مخاطب نہ رہے گا ۔
( ۵ ) مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سورۃ میں اے کافرو کا خطاب قریش کے صرف ان چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویزیں لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متلعق اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ یہ رائے انہوں نے دو وجودہ سے قائم کی ہے ۔ ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ( جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا ان کی عبادت میں نہیں کرتا ) فرمایا گیا ہے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاری پر صادق نہیں آتا ، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ) اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول ان لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اس سورۃ کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے ۔ لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں ۔ جہاں تک ان آیتوں کا تعلق ہے ان کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو ان سے سمجھا گیا ہے ۔ یہاں اس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس سورہ کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو ان کے مر کھپ جانے کے بعد اس سورہ کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور سے مستقل طور پر قرآن میں درج کردینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں؟