Surah

Information

Surah # 110 | Verses: 3 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 114 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed at Mina on Last Hajj, but regarded as Madinan sura
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَاسۡتَغۡفِرۡهُ‌ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا‏ ﴿3﴾
تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
فسبح بحمد ربك و استغفره انه كان توابا
Then exalt [Him] with praise of your Lord and ask forgiveness of Him. Indeed, He is ever Accepting of repentance.
To apnay rabb ki tasbeeh karney lag hamd kay sath aur uss say maghfirat ki dua maang bey shak woh bara hi tauba qabool karney wala hai.
تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اور اس سے مغفرت مانگو ۔ ( ٢ ) یقین جانو وہ بہت معاف کرنے والا ہے ۔
( ۳ ) تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو ( ف٤ ) بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے ( ف۵ )
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، 3 اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، 4 بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ ؏١
تو آپ ( تشکراً ) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور ( تواضعاً ) اس سے استغفار کریں ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ( اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا ) ہے
سورة النصر حاشیہ نمبر : 3 حمد سے مراد اللہ تعالی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اس کا شکر ادا کرنا بھی ۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالی کو ہر لحاظ سے پاک اور منزہ قرار دینا ہے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے ، بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو ، اس پر اس کا شکر ادا کرو ، اور قلب و زبان سے اس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے ۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور منزہ قرار دو کہ اس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اس پر منحصر تھا ۔ اس کے برعکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرت پر منحصر تھی ، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا ۔ اس کے علاوہ تسبیح ، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے ۔ جب کوئی محیر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اس سے صادر ہوسکتا ۔ سورة النصر حاشیہ نمبر : 4 یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے ۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے ۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو ، اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں ، اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا وہ میں نے پورا کا پورا ادا کردیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا ، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے ۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے ۔ اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے ۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان مسلمان کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں ، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو ، اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں ۔