Surah

Information

Surah # 111 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 6 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
تَبَّتۡ يَدَاۤ اَبِىۡ لَهَبٍ وَّتَبَّؕ‏ ﴿1﴾
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔
تبت يدا ابي لهب و تب
May the hands of Abu Lahab be ruined, and ruined is he.
Abu Lahab ky dono hath toot gaye aur who ( khud ) halk ho gaya.
ہاتھ ابولہب کے برباد ہوں ، اور وہ خود برباد ہوچکا ہے ۔ ( ١ )
( ۱ ) تباہ ہوجائیں ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا ( ف۲ )
ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ ۔ 1
ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے ( اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے )
سورة اللھب حاشیہ نمبر : 1 اس شخص کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ، اور اسے ابو لہب اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا ۔ لہب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں اور ابو لہب کے معنی ہیں شعلہ ۔ یہاں اس کا ذکر اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت ہی سے معروف تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبدالعزیٰ ( بندہ عزی ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا کہ اسے اس نام سے یاد کیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اس کا جو انجام اس سورہ میں بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ اس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ کے معنی بعض مفسرین نے ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ بیان کیے ہیں اور وَّتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے یا وہ ہلاک ہوگیا ۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اس کو دیا گیا ہو ، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے ، گویا اس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے وہ ہوچکی ۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اس سورہ میں چند سال پہلے بیان کیا جاچکا تھا ۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے ، بلکہ کسی شخص کا اپنے اس مقصد میں قطعی ناکام ہوجانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو ۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا دیا تھا ۔ لیکن اس سورہ کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے ۔ مکہ میں جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا ۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی ۔ اسے عدسہ ( Malignant Pustule ) کی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا ، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا ۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی ۔ آخر کار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا ۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا ۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا ۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں ، پھر فتح مکہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباس کی وساطت سے حضور کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لاکر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔
تفسیر سورۃ تبت بدترین اور بدنصیب میاں بیوی:٭٭ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے یاصباحاہ یاصباحاہ کہنے لگے قریش سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمھو گے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری ( بخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ تبت بددعا ہے اور تب خبر ہے ، یہ ابو لہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابو عتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذاء دہی تکلیف رسائی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ، ربیعہ بن عباد ویلی اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پاؤ گے لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا لوگو یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابو لہب ہے ( لعنہ اللہ ) ( مسند احمد ) ابو الزنادنے راوی حدیث حضرت ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے فرمایا نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا ، دوسری روایت میں ہے میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر الہت عالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابو لہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا اے فلاں قبیلے کے لوگو! یہ شخص تو تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہوں اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں بھی گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا ( احمد و طبرانی ) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابو لہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ اب مسعود فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابو لہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس کے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیت مااغنی الخ ، اتری ، پھر فرمایا کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے الی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابو سفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اسی لئے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لڑکیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی اور جہنم کا ایندھن سمیٹتی رہے گی ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ حمالتہ الحطب سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر اسی کو پسند کرتے ہیں ، ابن عباس وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ، واللہ اعلم ۔ سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ مسد کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لئے یوں کہتی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ، اس کے دین کے دشمن ہیں اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعتہ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے صدیق اکبر نے اسے اس حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی ، پھر آپنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مسوراً یعنی جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں ۔ یہ ڈائن آ کر حضرت ابو بکر کے پاس کھڑی ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت صدیق اکبر کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں رب البیت کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں ( ابن ابی حاتم ) ایک مرتبہ یہ اپنی لمبی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سارے ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو حضرت صدیق نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانت ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد حضرت صدیق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی ، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں پہنچایا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب مسد کہدیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ، ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے نہ باطن میں نہ چھپے نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔