Surah

Information

Surah # 111 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 6 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَّامۡرَاَ تُهٗ ؕ حَمَّالَةَ الۡحَطَبِ‌ۚ‏ ﴿4﴾
اور اس کی بیوی بھی ( جائے گی ، ) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے ۔
و امراته حمالة الحطب
And his wife [as well] - the carrier of firewood.
Aur uski biwi bhi ( jaeygi ) jo lakriyan dhonay waali hai.
اور اس کی بیوی بھی ( ٣ ) لکڑیاں ڈھوتی ہوئی ۔ ( ٤ )
( ٤ ) اور اس کی جُورو ( ف٤ ) لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی ،
اور ﴿اس کے ساتھ﴾ اس کی جورو بھی ، 3 لگائی بجھائی کرنے والی ، 4
اور اس کی ( خبیث ) عورت ( بھی ) جو ( کانٹے دار ) لکڑیوں کا بوجھ ( سر پر ) اٹھائے پھرتی ہے ، ( اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے )
سورة اللھب حاشیہ نمبر : 3 اس عورت کا نام اَرویٰ تھا اور ام جمیل اس کی کنیت تھی ۔ یہ ابو سفیان کی بہن تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عداوت میں اپنے شوہر ابولہب سے کسی طرح کم نہ تھی ۔ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور ام جمیل نے اس کو سنا تو وہ بپھری ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی ۔ اس کے ہاتھ میں مٹھی بھر پتھر تھے اور وہ حضور کی ہجو میں اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی ۔ حرم میں پہنچی تو وہاں حضرت ابوبکر کے ساتھ حضور تشریف فرما تھے ۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ، یہ آرہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یہ کوئی بیہودگی کرے گی ۔ حضور نے فرمایا یہ مجھ کو نہیں دیکھ سکے گی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے موجود ہونے کے باوجود وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی اور اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے ۔ حضرت ابوبکر نے کہا ، اس گھر کے رب کی قسم انہوں نے تو تمہاری کوئی ہجو نہیں کی ۔ اس پر وہ واپس چلی گئی ( ابن ابی حاتم ۔ سیرۃ ابن ہشام ۔ بزار نے حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ) حضرت ابوبکر کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہجو تو اللہ تعالی نے کی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ۔ سورة اللھب حاشیہ نمبر : 4 اصل الفاظ ہیں حَمَّالَةَ الْحَطَبِ جن کا لفظی ترجمہ ہے لکڑیاں ڈھونے والی مفسرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ، ابن زید ، ضحاک اور بعی بن انس رضی اللہ عنہم کہتےہیں کہ وہ راتوں کو خاردار درختوں کی ٹہنیاں لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ڈال دیتی تھی ، اس لیے اس کو لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ہے ۔ قتادہ ، عکرمہ ، حسن بصری ، مجاہد اور سفیان ثوری رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ وہ لوگوں میں فساد ڈلوانے کے لیے چغلیاں کھاتی پھرتی تھی ، اس لیے اسے عربی محاورے کے مطابق لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو ادھر کی بات ادھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو ، لکڑیاں ڈھونے والا کہتے ہیں ۔ اس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَةَ الْحَطَبِ معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں بی جمالو کے معنی ہیں ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جو شخص گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اس کے متعلق عربی زبان میں بطور محاورہ کہا جاتا ہے فلان یحتطب علی ظھرہ ۔ فلاں شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد رہا ہے ۔ پس حَمَّالَةَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں گناہوں کا بوجھ ڈھونے والی ۔ ایک اور مطلب مفسرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں اس کا حال ہوگا ، یعنی وہ لکڑیاں لا لا کر اس آگ میں ڈالے گی جس میں ابو لہب جل رہا ہوگا ۔