Surah

Information

Surah # 113 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 20 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَۙ‏ ﴿2﴾
ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے ۔
من شر ما خلق
From the evil of that which He created
Her uss cheez ky shar say jo uss nay paida ki hai.
ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے ۔
( ۲ ) اس کی سب مخلوق کی شر سے ( ف۳ )
ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے ، 4
ہر اس چیز کے شر ( اور نقصان ) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 4 بالفاظ دیگر تمام مخلوقات کے شر سے میں اس کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اس فقرے میں چند باتیں قابل غور ہیں: اول یہ کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی ، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی طرف اور شر کی نسبت مخلوقات کی طرف کی گئی ہے ۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ان شرور سے پناہ مانگتا ہوں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں ، بلکہ یہ فرمایا کہ ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس نے پیدا کی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اس کا ہر کام خیر اور کسی مصلت ہی کے لیے ہوتا ہے ، البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصاف اس نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ ان کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو ، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلوقات سے اکثر شر رونما ہوتا ہے ۔ دوم یہ کہ اگر صرف اسی ایک فقرے پر اکتفا کیا جاتا اور بعد کے فقروں میں خاص قسم کی مخلوقات کے شرور سے الگ الگ خدا کی پناہ مانگنے کا نہ بھی ذکر کیا جاتا تو یہ فقرہ مدعا پورا کرنے کے لیے کافی تھا ، کیونکہ اس میں ساری ہی مخلوقات کے شر سے خدا کی پناہ مانگ لی گئی ہے ۔ اس عام اسعاذے کے بعد چند مخصوص شرور سے پناہ مانگنے کا ذکر خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ ویسے تو میں خدا کی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ، لیکن خاص طور پر وہ چند شرور جن کا ذکر سورہ فلق کی باقی آیات اور سورہ ناس میں کیا گیا ہے ، ایسے ہیں جن سے خدا کی امان پانے کا میں بہت محتاج ہوں ۔ سوم یہ کہ مخلوقات کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین اور موثر ترین استعاذہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کے خالق کی پناہ مانگی جائے ، کیونکہ وہ بہرحال اپنی مخلوق پر غالب ہے ، اور ان کے ایسے شرور کو بھی جانتا ہے جنہیں ہم جانتے ہیں اور ایسے شرور سے بھی واقف ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ لہذا اس کی پناہ گویا اس حاکم اعلی کی پناہ ہے جس کے مقابلے کی طاقت کسی مخلوق میں نہیں ہے ، اور اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سے اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو ۔ نیز اس میں دنیا ہی کے نہیں آخرت کے بھی ہر شر سے استعاذہ شامل ہے ۔ چہارم یہ کہ شرط کا لفظ نقصان ، ضرر ، تکلیف اور الم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور ان اسباب کے لیے بھی جو نقصان و ضرر اور تکلیف و الم کے موجب ہوتے ہیں ۔ مثلا بیماری ، بھوک ، کسی حادثے یا جنگ میں زخمی ہونا ، آگ سے جل جانا ، سانپ بچھو وغیرہ سے ڈسا جانا ، اولاد کی موت کے غم میں مبتلا ہونا ، اور ایسے ہی دوسرے شرور پہلے معنی میں شر ہیں ۔ کیونکہ یہ بجائے خود تکلیف اور اذیت ہیں ۔ بخلاف اس کے مثال کے طور پر کفر ، شرک ، اور ہر قسم کے گناہ اور ظلم دوسرے معنی میں شر ہیں کیونکہ ان کا انجام نقصان اور ضرر ہے اگرچہ بظاہر ان سے فی الوقت کوئی تکلیف نہ پہنچتی ہو ، بلکہ بعض گناہوں سے لذت ملتی یا نفع حاصل ہوتا ہو ۔ پس شر سے پناہ مانگنا ان دونوں مفہومات کا جامع ہے ۔ پنجم یہ کہ شر سے پناہ مانگنے میں دو مفہوم اور بھی شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شر واقع ہوچکا ہے ، بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کردے ۔ دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں ہوا ہے ، بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا مجھے اس شر سے محفوظ رکھے ۔