Surah

Information

Surah # 113 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 20 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِۙ‏ ﴿1﴾
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔
قل اعوذ برب الفلق
Say, "I seek refuge in the Lord of daybreak
Aap kehdijiye! Kay mein subha ky Rab ki panah mein aata hun
کہو ( ١ ) کہ : میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں ۔
( ۱ ) تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے ( ف۲ )
کہو ، 1 میں پناہ مانگتا ہوں 2 صبح کے رب کی ، 3
آپ عرض کیجئے کہ میں ( ایک ) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ ( کائنات کو ) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 1 چونکہ قُلْ ( کہو ) کا لفظ اس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ، اس لیے اگرچہ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اس کا مخاطب ہے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 2 پناہ مانگنے کے فعل میں لازم تین اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا ۔ دوسرے پناہ مانگنے والا ۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے ۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا ، یا اس کی آڑ لینا ، یا اس سے لپٹ جانا یا اس کے سایہ میں چلا جانا ہے ۔ پناہ مانگنے والا بہرحال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے ۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازما کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین طبعی کے مطابق عالم اسباب کے اندر کسی محسوس مادی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مثلا دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا ، یا گولیوں کی بوجھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا ، یا کسی طاقتور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا ، یا دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا ۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات کی مادی ، اخلاقی یا روحانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطری ہستی کی پناہ اس عقیدے کی بنا پر مانگی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حس و ادراک طریقے سے وہ اس شخس کی ضرور حفاظت کرسکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ پناہ کی یہ دوسری قسم ہی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ ( پناہ مانگنا ) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے ۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں مثلا جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں ۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع و وسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، کیونکہ وہ کسی فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیات کے مقابلے میں جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا ہے ، مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ( الجن6 ) اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ 7 میں حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ہم اس وادی کے رب کی ( یعنی اس جن کی جو اس وادی پر حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے ) پناہ مانگتے ہیں ۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسی کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا ۔ ( الذاریات ، 39 ) لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کرتے ہیں ، خواہ وہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی ، اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا ( جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے ) تو انہوں نے کہا قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا ۔ اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ( مریم 18 ) حضرت نوح نے جب اللہ تعالی سے ایک بے جا دعا کی اور جواب میں اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فورا عرض کیا رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۔ میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں ( ہود 47 ) حضرت موسی نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ( البقرہ 67 ) یہی شان ان تمام تعوذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حضور کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجے: عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعائہ اللھم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر ما لم اعمل ( مسلم ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے ( یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں ، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تو اس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں ، یا اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں ) عن ابن عمر کان من دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اعوذبک من زوال نعمتک ، وتحول عافیتک ، وفجأۃ نقمتک و جمیع سخطک ۔ ( مسلم ) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے ، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضی سے ۔ عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب ( مسلم ) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو ، اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے ، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو ، اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے ۔ عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع و اعوذبک من الخیانۃ فانہ بئست الطانۃ ۔ ( ابو داؤد ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بدترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے ۔ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اللھم انی اعوذبک من البرص والجنون والجذام وسیء الاسقام ( ابوداؤد ) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جذام اور تمام بری بیماریوں سے ۔ عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھؤلاء الکلمات اللھم انی اعوذبک من فتنۃ النار ومن شر الغنی والفقر ( ترمذی و ابو داؤد ) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے ۔ عن قطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاھواء ( ترمذی ) قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں شکل بن حمید نے حضور سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتائیے ۔ فرمایا کہو: اللھم انی اعوذبک من شر سمعی و من شر بصری و من شر لسانی ومن شر قلبی و من منیی ۔ ( ترمذی و ابوداؤد ) خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے ، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے ۔ عن انس بن مالک کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والھرم والبخل و اعوذبک من عذاب القبر من فتنۃ المحیا والممات ( وفی روایۃ لمسلم ) و ضلع الدین و غلبۃ الرجال ( بخاری و مسلم ) انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی اور بزدلی اور بڑھاپے اور بخ سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے ) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں ۔ عن خولۃ بنت حکیم السلمیۃ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من نزل منزلا ثم قال اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق لم یضرہ شیء حتی یرتحل من ذلک المنزل ( مسلم ) خولہ بنت حکیم سلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے ۔ یہ حضور کے چند تعوذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہوکر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ رَبِّ الْفَلَقِ استعمال ہوا ہے ۔ فلق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدی صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فلق الصبح کا لفظ طلوع صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے ، اور قرآن میں بھی اللہ تعالی کے لیے فالق الاصباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے ( الانعام 96 ) فلق کے دوسرے معنی خلق بھی لیئے گئے ہیں ، کیونک دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں ۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے برآمد ہوتے ہیں ، یا انڈا توڑ کر نکلتے ہیں ، یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کر باہر آتے ہیں ۔ تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں ۔ دن رات کا پردہ چاک کر کے نمودار ہوتا ہے ، بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں ، غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ( الانبیاء 30 ) پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہوگا میں تمام خلق کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔ اس جگہ اللہ تعالی کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت رب اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالی کے رب یعنی مالک و پروردگار اور آقا و مربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ پھر رَبِّ الْفَلَقِ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہو تو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد بِرَبِّ خَلق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ اپنی مخلوق کے شر سے مجھے بچائے ۔
بیماری ، وبا ، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے باؤ کی دعا٭٭ حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو ، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے ، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے ۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے ۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔ غاسق سے مراد رات ہے ۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے ، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آ جائے ، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں ۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے ، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے ، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے ، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے ، واللہ اعلم ۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے ۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بے اثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا ، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا ، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے ، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے ، جب یہ حالت آپ کی ہو گئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف ، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے ، کہا کس چیز میں؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں ، پھر حضور صلی اللہ علیہ السلام اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا ، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کر دیا گیا ، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی ، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی ، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے ، ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا ۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم ۔