سورة الفلق حاشیہ نمبر : 1
چونکہ قُلْ ( کہو ) کا لفظ اس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ، اس لیے اگرچہ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اس کا مخاطب ہے ۔
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 2
پناہ مانگنے کے فعل میں لازم تین اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا ۔ دوسرے پناہ مانگنے والا ۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے ۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا ، یا اس کی آڑ لینا ، یا اس سے لپٹ جانا یا اس کے سایہ میں چلا جانا ہے ۔ پناہ مانگنے والا بہرحال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے ۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازما کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین طبعی کے مطابق عالم اسباب کے اندر کسی محسوس مادی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مثلا دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا ، یا گولیوں کی بوجھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا ، یا کسی طاقتور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا ، یا دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا ۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات کی مادی ، اخلاقی یا روحانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطری ہستی کی پناہ اس عقیدے کی بنا پر مانگی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حس و ادراک طریقے سے وہ اس شخس کی ضرور حفاظت کرسکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ پناہ کی یہ دوسری قسم ہی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ ( پناہ مانگنا ) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے ۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں مثلا جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں ۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع و وسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، کیونکہ وہ کسی فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیات کے مقابلے میں جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا ہے ، مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ( الجن6 ) اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ 7 میں حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ہم اس وادی کے رب کی ( یعنی اس جن کی جو اس وادی پر حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے ) پناہ مانگتے ہیں ۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسی کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا ۔ ( الذاریات ، 39 ) لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کرتے ہیں ، خواہ وہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی ، اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا ( جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے ) تو انہوں نے کہا قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا ۔ اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ( مریم 18 ) حضرت نوح نے جب اللہ تعالی سے ایک بے جا دعا کی اور جواب میں اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فورا عرض کیا رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۔ میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں ( ہود 47 ) حضرت موسی نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ( البقرہ 67 )
یہی شان ان تمام تعوذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حضور کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجے:
عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعائہ اللھم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر ما لم اعمل ( مسلم ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے ( یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں ، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تو اس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں ، یا اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں )
عن ابن عمر کان من دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اعوذبک من زوال نعمتک ، وتحول عافیتک ، وفجأۃ نقمتک و جمیع سخطک ۔ ( مسلم ) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے ، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضی سے ۔
عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب ( مسلم ) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو ، اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے ، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو ، اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے ۔
عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع و اعوذبک من الخیانۃ فانہ بئست الطانۃ ۔ ( ابو داؤد ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بدترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے ۔
عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اللھم انی اعوذبک من البرص والجنون والجذام وسیء الاسقام ( ابوداؤد ) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جذام اور تمام بری بیماریوں سے ۔
عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھؤلاء الکلمات اللھم انی اعوذبک من فتنۃ النار ومن شر الغنی والفقر ( ترمذی و ابو داؤد ) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے ۔
عن قطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاھواء ( ترمذی ) قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں
شکل بن حمید نے حضور سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتائیے ۔ فرمایا کہو:
اللھم انی اعوذبک من شر سمعی و من شر بصری و من شر لسانی ومن شر قلبی و من منیی ۔ ( ترمذی و ابوداؤد ) خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے ، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے ۔
عن انس بن مالک کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والھرم والبخل و اعوذبک من عذاب القبر من فتنۃ المحیا والممات ( وفی روایۃ لمسلم ) و ضلع الدین و غلبۃ الرجال ( بخاری و مسلم ) انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی اور بزدلی اور بڑھاپے اور بخ سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے ) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں ۔
عن خولۃ بنت حکیم السلمیۃ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من نزل منزلا ثم قال اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق لم یضرہ شیء حتی یرتحل من ذلک المنزل ( مسلم ) خولہ بنت حکیم سلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے ۔
یہ حضور کے چند تعوذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہوکر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے ۔
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 3
اصل میں لفظ رَبِّ الْفَلَقِ استعمال ہوا ہے ۔ فلق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدی صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فلق الصبح کا لفظ طلوع صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے ، اور قرآن میں بھی اللہ تعالی کے لیے فالق الاصباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے ( الانعام 96 ) فلق کے دوسرے معنی خلق بھی لیئے گئے ہیں ، کیونک دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں ۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے برآمد ہوتے ہیں ، یا انڈا توڑ کر نکلتے ہیں ، یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کر باہر آتے ہیں ۔ تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں ۔ دن رات کا پردہ چاک کر کے نمودار ہوتا ہے ، بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں ، غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ( الانبیاء 30 ) پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہوگا میں تمام خلق کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔ اس جگہ اللہ تعالی کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت رب اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالی کے رب یعنی مالک و پروردگار اور آقا و مربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ پھر رَبِّ الْفَلَقِ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہو تو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد بِرَبِّ خَلق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ اپنی مخلوق کے شر سے مجھے بچائے ۔