Surah

Information

Surah # 113 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 20 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : قرآن مجید کی آخری دو سورتوں سورۃ الناس اور سورۃ الفلق کو مشترکہ طور پر مُعَوِّذَتَیُن کہا جاتا ہے ۔ اگرچہ قرآن مجید کی یہ آخری دوسورتیں بجائے خود الگ الگ ہیں ، اور مصحف میں الگ ناموں ہی سے لکھی ہوئی ہیں ، لیکن ان کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق ہے ، اور ان کے مضامین ایک دوسرے سے اتنی قریبی مناسبت رکھتے ہیں کہ ان کا ایک مشترک نام مُعَوِّذَتَیُن ( پناہ مانگنے والی دو سورتیں ) رکھا گیا ہے ۔ امام بیہقی نے دلائل نبوت میں لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہی ہوئی ہیں ، اسی وجہ سے دونوں کا مجموعی نام معوذتین ہے ۔ ہم یہاں دونوں پر ایک ہی مضمون لکھ رہے ہیں کیونکہ ان سے متعلقہ مسائل و مباحث بالکل یکساں ہیں ۔ زمانۂ نزول : حضرت حسن بصری ، عکرمہ ، عطاء اور جابر بن زید کہتے ہیں کہ یہ سورتیں مکی ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت یہی ہے ۔ مگر ان سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ مدنی ہیں اور یہی قول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور قتادہ کا بھی ہے ۔ اس دوسرے قول کو جو روایات تقویت پہنچاتی ہیں ان میں سے ایک مسلم ، ترمذی ، نسائی اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز مجھ سے فرمایا: ” الم تر اٰیاتٍ اُنزلَت اللیلۃ ، لم یُرَ مثلھن ، اَعُوُذُ بَرَبّ الُفَلَق ، اَعُوذ بِرَبِ النَّاس - تمہیں کچھ پتہ ہے کہ آج رات مجھ پر کیسی آیات نازل ہوئی ہیں؟ یہ بے مثل آیات ہیں ۔ اعوذ بربّ الفلق اور اعوذ بربّ الناس “ یہ حدیث اس بنا پر ان سورتوں کے مدنی ہونی کی دلیل ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں ایمان لائے تھے ، جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی نے خود ان کے اپنے بیان سے نقل کیا ہے ۔ دوسری روایات جو اس قول کی تقویت کی موجب بنی ہیں وہ ابن سعد ، مُحیّ السُّنّہ بَغَوِی ، امام نَسَفِی ، امام بَہَیقَی ، حافظ ابن حَجَر ، حافظ بدر الدین عَینی ، عَبُدبن حُمیّد وغیر ہم کی نقل کردہ یہ روایات ہیں کہ جب مدینے میں یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے تھے اس وقت یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں ۔ ابن سعد نے واقدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ سنہ 7 ھ کا واقعہ ہے ۔ اسی بنا پر سفیان بن عُیَینَہ نے بھی ان سورتوں کو مدنی کہا ہے ۔ لیکن جیسا کہ سورۃ الاخلاص کے مضمون میں بیان ہو چکا ہے کہ کسی سورۃ یا آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب لازما یہی نہیں ہوتا کہ وہ پہلی مرتبہ اسی موقع پر نازل ہوئی تھی ، بلکہ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت یا آیت پہلے نازل ہوچکی تھی ، اور پھر کوئی خاص واقعہ یا صورت حال پیش آنے پر اللہ تعالی کی طرف سے اسی کی طرف دوبارہ بلکہ کبھی کبھی بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ دلائی جاتی تھی ۔ ہمارے نزدیک ایسا ہی معاملہ معوذتین کا بھی ہے ۔ ان کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ ابتداءً مکہ میں اس وقت نازل ہوئی ہوں گی جب وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی ۔ بعد میں جب مدینہ طیبہ میں منافقین ، یہود ، اور مشرکین کی مخالفت کے طوفان اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر انہی دونوں سورتوں کے پڑھنے کی تلقین کی گئی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا روایت میں ذکر آیا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور آپ کی علالت مزاج نے شدت اختیار کی تو اللہ کے حکم سے جبریل علیہ السلام نےآکر پھر یہی سورتیں پڑھنے کی آپ کو ہدایت کی ۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان مفسرین کا بیان ہی زیادہ معتبر ہے جو ان دونوں سورتوں کو مکی قرار دیتے ہیں ۔ جادو کے معاملہ کے ساتھ ان کو مخصوص سمجھنے میں تو یہ امر بھی مانع ہے کہ اس کے ساتھ صرف سورۂ فلق کی صرف ایک آیت وَمِنُ شَرِّ النّفّٰثٰتِ فِی العُقَدِ ہی تعلق رکھتی ہے ، سورۂ فلق کی باقی آیات اور پوری سورۂ الناس کا اس معاملہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ موضوع اور مضمون : مکۂ معظمہ میں یہ دونوں سورتیں جن حالات میں نازل ہوئی تھیں وہ یہ تھے کہ اسلام کی دعوت شروع ہوتے ہی ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے ۔ جوں جوں آپ کی دعوت پھیلتی گئی ، کفار قریش کی مخالفت بھی شدید ہوتی چلی گئی ۔ جب تک انہیں یہ امید رہی کہ شاید وہ کسی طرح کی سودے بازی کر کے ، یا بہلا پھسلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کام سے باز رکھ سکیں گے ، اس وقت تک تو پھر بھی عَناد کی شدت میں کچھ کمی رہی ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرف سے بالکل مایوس کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ دین کے معاملہ میں کوئی مصالحت کرنے پر آمادہ ہوسکیں گے ، اور سورۂ کافرون میں صاف صاف ان سے کہہ دیا گیا کہ جن کی بندگی تم کرتے ہو ان کی بندگی کرنے والا میں نہیں ہوں ، اور جس کی بندگی میں کرتا ہوں اس کی بندگی کرنے والے تم نہیں ہو ، اس لیے میر راستہ الگ ہے اور تمہارا راستہ الگ ، تو کفار کی دشمنی اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔ خصوصیت کے ساتھ جن خاندانوں کے افراد ( مردوں یا عورتوں ، لڑکوں یا لڑکیوں ) نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کے دلوں میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر وقت بھٹیاں سلگتی رہتی تھیں ۔ گھر گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوسا جارہا تھا ۔ خفیہ مشورے کیےجارہے تھے کہ کسی وقت رات کو چھپ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے تاکہ بنی ہاشم کو قاتل کا پتہ نہ چل سکے اور بدلہ نہ لےسکیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جادو ٹونے کیے جارہے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا تو وفات پاجائیں یا سخت بیمار پڑ جائیں ، یا دیوانے ہوجائیں ۔ شیاطین جن و انس ہر طرف پھیل گئے تھے تاکہ عوام کےدلوں میں آپ کے خلاف اور آپ کے لائے ہوئے دین اور قرآن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیں جس سے لوگ بدگمان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور بھاگنے لگیں ۔ بہت سے لوگوں کےدلوں میں حسد کی آگ بھی جل رہی تھی ، کیونکہ وہ اپنے سوا ، یا اپنے قبیلے کے کسی آدمی کے سوا ، دوسرے کسی شخص کا چراغ جلتے نہ دیکھ سکتے تھے ۔ مثال کے طور پر ، ابو جہل جس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں حد سے بڑھتا چلا جاتا تھا اس کی وجہ وہ خود یہ بیان کرتا ہے کہ {{اقتباس|ہمارا اور بنی عبد مناف ( یعنی رسول اللہ کے خاندان ) کا باہم مقابلہ تھا ۔ انہوں نے کھانے کھلائے تو ہم نے بھی کھلائے ۔ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں ۔ انہوں نے عطیے دیے تو ہم نے بھی دیے ۔ یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی اترتی ہے ۔ بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہرگز اس کو نہ مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں پناہ مانگتا ہوں طلوع صبح کے رب کی ، تمام مخلوقات کے شر سے ، رات کے اندھیرے اور جادو گروں اور جادو گرنیوں کے شر سے ، اور حاسدوں کے شر سے ۔ اور ان سے کہہ دو کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب ، انسانوں کے بادشاہ اور انسانوں کے معبود کی ہر اس وسوسہ انداز کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے خواہ وہ شیاطین جن میں سے ہو یا شیاطین انس میں سے ۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی حضرت موسی علیہ السلام نے اس وقت فرمائی تھی جب فرعون نے بھرے دربار میں ان کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تھا اِنِّی عُذُتُ بِرَبّیِ وَرَبِّکُم مِن کُلِّ مُتکبّرٍ لَّا یؤمِنُ بِیَومِ الحِسَابِ میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا— القرآن سورۃ المؤمن:27 وَاِنِّی عُذتُ بَربِّی وَرَبکم اَن تَرُجُمُونِ اور میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے اس بات سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو— القرآن سورۃ الدخان:20 دونوں مواقع پر اللہ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا مقابلہ بڑی بے سر وسامانی کی حالت میں بڑے سرو سامان اور وسائل و ذرائع اور قوت و شوکت رکھنے والوں سے تھا ۔ دونوں مواقع پر وہ طاقتور دشمنوں کے آگے اپنی دعوت حق پر ڈٹ گئے درانحالیکہ ان کے پاس کوئی مادی طاقت ایسی نہ تھی جس کے بل پر وہ ان کا مقابلہ کر سکتے ۔ اور دونوں مواقع پر انہوں نے دشمنوں کی دھمکیوں اور خطرناک تدبیروں اور معاندانہ چالوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ تمہارے مقابلے میں ہم نے رب کائنات کی پناہ لے لی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اولوالعزمی اور ثابق قدمی وہی شخص دکھا سکتا ہے جس کو یہ یقین ہو کہ اس رب کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے ، اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری طاقتیں ہیچ ہیں ، اور اس کی پناہ جسے حاصل ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ وہی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں کلمہ حق کے اعلان سے ہرگز نہیں ہٹوں گا ، تم جو چاہو کر لو ، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ، کیونکہ میں تمہارے اور اپنے اور ساری کائنات کے رب کی پناہ لے چکا ہوں ۔ معوذتین کی قرآنیت : اتنی بحث ہی کافی ہے جو اوپر کی جا چکی ہے ۔ لیکن چونکہ حدیث وتفسیر کی کتابوں میں ان کے متعلق تین ایسے مباحث آگئے ہیں جو دلوں میں شبہات پیدا کرسکتے ہیں ، اس لیے ہم ان کو بھی صاف کردینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے اولین قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا ان دونوں سورتوں کا قرآنی سورتیں ہونا قطعی طور پر ثابت ہے ، یا اس میں کسی شک کی گنجائش ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے عظیم المرتبہ صحابی سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے اور اپنے مصحف سے انہوں نے ان کو ساقط کردیا تھا ۔ امام احمد ، بزّار ، طَبرَانی ، ابن مَردویہ ، ابو یَعلی ، عبد اللہ بن احمد بن حنبل ، حُمَیدی ، ابو نُعیم ، ابن حبان ، وغیرہ محدثین نے مختلف سندوں سے اور اکثرو بیشتر صحیح سندوں سے یہ بات حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے ۔ ان روایات میں نہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ ان سورتوں کو مصحف سے ساقط کردیتے تھے ، بلکہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے قرآن کے ساتھ وہ چیزیں نہ ملاؤ جو قرآن کا جز نہیں ہیں ۔ یہ دونوں قرآن میں شامل نہیں ہیں ۔ یہ تو ایک حکم تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا کہ آپ ان الفاظ میں خدا کی پناہ مانگیں ۔ بعض روایات میں اس پر یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ ان سورتوں کو نماز میں نہیں پڑھتے تھے ۔ ان روایات کی بنا پر مخالفین اسلام کو قرآن کے بارے میں یہ شبہات ابھارنے کا موقع مل گیا کہ معاذ اللہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ نہیں ہے بلکہ اس میں جب دو سورتیں ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کے بیان کے مطابق الحاقی ہیں تو نہ معلوم اور کیا کیا حذف و اضافے اس کے اندر ہوئے ہوں گے ۔ اس طعن سے پیچھا چھڑانے کے لیے قاضی ابوبکر الباقِلانی اور قاضی عیاض وغیرہ نے یہ تاویل کی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ مُعوذتین کی قرآنیت کے منکر نہ تھے بلکہ صرف ان کو مُصحَف میں درج کرنے سے انکار کرتے تھے ، کیونکہ ان کے نزدیک مصحف میں صرف وہی چیز درج کی جانی چاہیے تھی جس کے ثبت کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہو ، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک یہ اطلاع نہ پہنچی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے ۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے ، کیونکہ صحیح سندوں کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعود نے ان کے قرآنی سورتیں ہونے کا انکار کیا ہے ۔ کچھ دوسرے بزرگوں ، مثلاً امام نووی ، امام ابن حَزُم اور امام فخر الدین رازی نے سرے سے اس بات ہی کو جھوٹ اور باطل قرار دیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ مگر مستند تاریخی حقائق کو بلا سند رد کردینا کوئی علمی طریقہ نہیں ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ابن مسعود کی ان روایات سے قرآن پر جو طعن وارد ہوتا ہے اس کا صحیح رد کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں جن کو ہم سلسلہ وار درج کرتے ہیں: ( 1 ) حافظ بزار نے اپنی مسند میں ابن مسعود کی یہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اپنی اس رائے میں وہ بالکل منفرد ہیں ۔ صحابہ میں سی کسی نے بھی ان کے اس قول کی تائید نہیں کی ہے ۔ ( 2 ) تمام صحابہ کے اتفاق سے خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے جو نسخے مرتب کروائے تھے اور خلافت اسلامیہ کی طرف سے جن کو دنیائے اسلام کے مراکز میں سرکاری طور پر بھیجا تھا ان میں یہ دونوں سورتیں درج تھیں ۔ ( 3 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک تمام دنیائے اسلام کا جس مصحف پر اجماع ہے اس میں یہ دونوں سورتیں درج ہیں ۔ تنہا عبد اللہ بن مسعود کی رائے ، ان کی جلالت قدر کے باوجود ، اس عظیم اجماع کے مقابلے میں کوئی وزن نہیں رکھتی ۔ ( 4 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت صحیح و معتبر احادیث کے مطابق یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کو نماز میں خود پڑھا ہے ، دوسروں کو پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اور قرآن کی سورتوں کی حیثیت ہی سے لوگوں کو ان کی تعلیم دی ہے ۔ مثال کے طور پر ذیل کی احادیث ملاحظہ ہوں: مسلم ، احمد ، ترمِذی ، اور نَسائی کے حوالہ سے حضرت عُقُبہ رضی اللہ عنہ بن عامِر کی یہ روایت ہم اوپر نقل کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فَلَق اور سورہ ناس کے متعلق ان سے یہ فرمایا کہ آج رات یہ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں ۔ نسائی کی ایک روایت عُقبہ بن عامر سے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں صبح کی نماز میں پڑھیں ۔ ابن حِبّان نے انہی حضرت عُقُبہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اگر ممکن ہو تو تمہاری نمازوں سے ان دونوں سورتوں کی قراءت چھوٹنے نہ پائے ۔ سعید بن منصور نے حضرت مُعاذ بن جبَل سے روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں ۔ امام احمد نے اپنی مسند میں صحیح سند کے ساتھ ایک اور صحابی کی یہ روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا جب تم نماز پڑھو تو اس میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرو ۔ مسند احمد ، ابو داؤد اور نسائی میں عُقُبہ بن عامر کی یہ روایت آئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا میں دو ایسی سورتیں تمہیں نہ سکھاؤں جو ان بہترین سورتوں میں سے ہیں جنہیں لوگ پڑھتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہی معوّذتین پڑھائیں ۔ پھر نماز کھڑی ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دو سورتیں اس میں بھی پڑھیں ۔ اور نماز کے بعد پلٹ کرجب آپ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا اے عُقَب ، کیسا پایا تم نے؟ اور اس کے بعد ان کو ہدایت فرمائی کہ جب تم سونے لگو اور جب سوکر اٹھو تو ان سورتوں کو پڑھا کرو ۔ مسند احمد ، ابو داؤد ، تِرُمِذِی اور نسائی میں عُقُبہ بن عامر کی ایک روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہر نماز کے بعد مُعَوّذات ( یعنی قل ہو اللہ احد اور معوّذتین ) پڑھنے کی تلقین کی ۔ نسائی ، ابن مَرُدُوُیہ اور حاکم نے عُقُبہ بن عامر کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر چلے جارہے تھے اور آپ کے قدم مبارک پر ہاتھ رکھے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا مجھے سورہ ہود یا سورہ یوسف سکھا دیجئے ۔ فرمایا اللہ کے نزدیک بندے کے لیے قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفلَقِ سے زیادہ نافع کوئی چیز نہیں ہے ۔ عبد اللہ بن عابِس الجُہنِی کی روایت نسائی ، بَہیقِی ، بَغَوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابن عابِس ، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی چیزوں کے ذریعہ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کونسی چیزیں ہیں؟ میں نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ ۔ فرمایا قُل اَعُوذ بِرَبِّ الفَلَقِ اور قُل اَعُوذ بِرَبِّ النَّاسِ یہ دونوں سورتیں ۔ ابن مَردُویہ نے حضرت ام سَلمہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ کو جو سورتیں سب سے زیادہ پسند ہیں وہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ غلط فہمی آخر کیسے لاحق ہوئی کہ یہ دونوں قرآن مجید کی سورتیں نہیں ہیں؟ اس کا جواب ہمیں دو روایتوں کو جمع کر کے دیکھنے سے ملتا ہے ۔ ایک یہ روایت کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے کہ یہ تو ایک حکم تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا کہ آپ اس طرح تعوُّذ کیا کریں ۔ دوسری وہ روایت جو کئی مختلف سندوں سے امام بخاری نے صحیح البخاری میں ، امام احمد نے اپنی مسند میں ، ابو نُعَیم نے اپنی المُستخرَج میں اور نسائی نے اپنی سُنَن میں زر بن حُبَیش کے حوالے سے تھوڑے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت اُبَی بن کعب سے ، جو علم قرآن کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے ، زر بن حُبَیش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابی کے بھائی سے کہا کہ آپ کے بھائی عبد اللہ بن مسعود ایسا اور ایسا کہتے ہیں ۔ آپ ان کے اس قول کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے اس کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا قل ، تو میں نے بھی کہا قُل ۔ اس لیے ہم بھی اسی طرح کہتے تھے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے ۔ امام احمد کی روایت میں حضرت ابی کے الفاظ یہ ہیں: میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے آپ سے قل اعوذ برب الفلق کہا تھا اس لیے آپ نے بھی ایسا ہی کہا ، اور انہوں نے قل اعوذ برب الناس کہا تھا اس لیے آپ نے بھی ایسا ہی کہا ۔ لہٰذا ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ان دونوں روایتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کو دونوں سورتوں میں لفظ قُل ( کہو ) دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اَعوذُ برب الفلق اور اَعوذ برب الناس کہنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ لیکن انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ حضرت ابی بن کعب کے ذہن میں بھی اس کے متعلق سوال پیدا ہوا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو پوچھ لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے چونکہ قُل کہا تھا اس لیے میں بھی قُل کہتا ہوں ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر کسی کو حکم دینا مقصود ہو اور اس سے کہا جائے کہ کہوں‘ میں پناہ مانگتا ہوں ، تو وہ حکم کی تعمیل میں یہ نہیں کہے گا کہ کہو‘ میں پناہ مانگتا ہوں بلکہ وہ کہو کا لفظ ساقط کر کے میں پناہ مانگتا ہوں اور یہ پیغام اسے اپنے تک رکھنے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں تک پہنچانے کے لیے دیا جائے تو وہ لوگوں تک پیغام کے الفاظ کو جوں کا توں پہنچائے گا ، اس میں سے کوئی چیز ساقط کرنے کا مجاز نہ ہوگا ۔ پس ان دونوں سورتوں کی ابتدا لفظ قُل سے ہونا اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ کلام وحی ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہی الفاظ میں پہنچانے کے پابند تھے جن الفاظ میں یہ آپ کو ملا تھا ۔ اس کی حیثیت محض ایک حکم کی نہ تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہو ۔ قرآن مجید میں ان دو سورتوں کے علاوہ ۳۳۰ آیتیں ایسی ہیں جو لفظ قُل ( کہو ) سے شروع ہوئی ہیں ۔ ان سب میں قُل کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ کلام وحی ہے جسے انہی الفاظ میں پہنچانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ فرض تھا جن الفاظ میں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا ۔ ورنہ ہر جگہ قُل اگر ایک حکم ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لفظ کو ساقط کر کے وہ بات کہتے جس کے کہنے کا آپ کو حکم دیا گیا تھا ، اور اسے قرآن میں درج نہ کیا جاتا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس حکم کی تعمیل میں وہ بات کہہ دینے پر اکتفا فرماتے جسے کہنے کا آپ کو حکم دیا گیا تھا ۔ اس مقام پر اگر آدمی کچھ غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آسکتی ہے کہ صحابہ کرام کو بے خطا سمجھنا اور ان کی کسی بات کے لیے غلط کا لفظ سنتے ہی توہین صحابہ کا شور مچا دینا کس قدر بے جا حرکت ہے ۔ یہاں آپ دیکھ رہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دو سورتوں کے بارے میں کتنی بڑی چوک ہو گئی ۔ ایس چوک اگر اتنے عظیم مرتبہ کے صحابی سے ہو سکتی ہے تو دوسروں سے بھی کوئی چوک ہوجانی ممکن ہے ۔ ہم علمی تحقیق کے لیے اس کی چھان بین بھی کر سکتے ہیں ، اور کسی صحابی کو کوئی بات یا چند باتیں غلط ہوں تو انہیں غلط بھی کہہ سکتے ہیں ۔ البتہ سخت ظالم ہوگا وہ شخص جو غلط کو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر ان پر زبان طعن دراز کرے ۔ انہی مُعوِّذتین کے بارے میں مفسرین و محدثین نے ابن مسعود کی رائے کو غلط کہا ہے ، مگر کسی نے یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کی دوسورتوں کا انکار کر کے معاذ اللہ وہ کافر ہوگئے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونا : دوسرا مسئلہ جو ان سورتوں کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روایات کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا ، اور اس کے اثر سے آپ بیمار ہو گئے تھے ، اور اس اثر کو دور کرنے کے لیے جبریل علیہ السلام نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سورتیں پڑھنے کی ہدایت کی تھی ۔ اس پر قدیم اور جدید زمانے کے بہت سے عقلیت پسندوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ روایات اگر مان لی جائیں تو شریعت ساری کی ساری مشتبہ ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ اگر نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا تھا ، اور ان روایات کی رو سے ہوگیا تھا ، تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ مخالفین نے جادو کے زور پر نبی سے کیا کیا کہلوا اور کروا لیا ہو ، اور اس کی دی ہوئی تعلیم میں کتنی چیزیں خدا کی طرف سے ہوں اور کتنی جادو کے زیر اثر ۔ یہی نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کو سچ مان لینے کے بعد تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ جادو ہی کے ذریعہ سے نبی کو نبوت کے دعوے پر اکسایا گیا ہو اور نبی نے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے پاس فرشتہ آیا ہے ۔ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ یہ احادیث قرآن مجید سے متصادم ہیں ۔ قرآن میں تو کفار کا یہ الزام بیان کیا گیا ہے کہ نبی ایک مسحور ، یعنی سحر زدہ آدمی ہے ( یَقُولُ الظّٰلِمُونَ ان تَتَّبِعُونَ اِلا رَجُلاً مُّسحُوراً ۔ بنی اسرائیل ٤۷ ) مگر یہ احادیث کفار کے الزام کی تصدیق کرتی ہیں کہ واقعی نبی پر سحر کا اثر ہوا تھا ۔ اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا تھا ؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا ؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر وہ اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں یا نہیں جو کئے گئے ہیں ؟ قرون اولیٰ کے مسلمان علماء کی یہ انتہائی راستبازی تھی کہ انہوں نے اپنے خیالات اور مزعومات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، بلکہ جو کچھ تاریخی طور پر ثابت تھا اسے جوں کا توں بعد کی نسلوں تک پہنچا دیا اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ ان حقائق سے اگر کوئی الٹے نتائج نکالنے پر اتر آئے تو ان کا فراہم کردہ یہ مواد کس طرح اس کے کام آسکتا ہے ۔ اب اگر ایک بات نہایت مستند اور کثیر تاریخی ذرائع سے ثابت ہو تو کسی دیانت دار صاحب علم کے لیے نہ تو یہ درست ہے کہ وہ اس تاریخ کا انکار کردے کہ اس کو مان لینے سے اس کے نزدیک فلاں فلاں قباحتیں رونما ہوتی ہیں ، اور نہ یہی درست ہے کہ جتنی بات تاریخ سے ثابت ہے اس کو قیاسات کے گھوڑے دوڑا کر اس کی اصلی حد سے پھیلانے اور بڑھانے کی کوشش کرے ۔ اس کے بجائے اس کا کام یہ ہے کہ تاریخ کو تاریخ کی حیثیت سے مان لے اور پھر دیکھے کہ اس سے فی الواقع کیا ثابت ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ۔ جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زید بن اَرقَم اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ، عبد الرزاق ، حُمَیدی ، بہیقی ، طبرانی ، ابن سعد ، ابن مردویہ ، ابن ابی شَیبہ ، حاکم ، عبد بن حمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا نفس مضمون تواتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے‘ اگرچہ ایک ایک روایت بجائے خود خبر واحد ہے ، اس کی تفصیلات جو روایات میں آئی ہیں انہیں ہم مجموعی طور پر تمام روایات سے مرتب کرکے ایک مربوط واقعہ کی صورت میں یہاں درج کرتے ہیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو محرم 7 ھ میں خیبر سے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لبید بن اَعصم سے ملا جو انصار کے قبیلہ بنی زُرَیق سے تعلق رکھتا تھا ۔ ( 1 ) ان لوگوں نے اس سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معلوم ہے ۔ ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی ، مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی ۔ اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں ، کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو ۔ لو ، یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں ، انہیں قبول کرو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک زور کا جادو کردو ۔ اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا ۔ اس سے ساز باز کر کے ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کر لیا جس میں آپ کے موئے مبارک تھے ۔ انہی بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ لَبِید بِن اَعصم نے خود جادو کیا تھا ، اور بعض میں یہ ہے کہ اس کی بہنیں اس سے زیادو جادوگرنیاں تھیں ، ان سے اس نے جادو کروایا تھا ۔ بہرحال ان دونوں صورتوں میں جو صورت بھی ہو ، اس جادو کو ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف ( 2 ) میں رکھ کر لَبِید نے بَنی زُرَیق کے کنویں ذروان یا ذی اَرُوان نامی کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا ۔ اس جادو کا اثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتے ہوتے پورا ایک سال لگا ، دوسری ششماہی میں کچھ تغیر مزاج محسوس ہونا شروع ہوا ، آخری چالیس دن سخت اور آخری تین دن زیادہ سخت گزرے ۔ مگر اس کا زیادہ سے زیادہ جو اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے چلے جارہے تھے ، کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کر لیا ہے مگر نہیں کیا ہوتا تھا ، اپنی ازواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں مگر نہیں گئے ہوتے تھے ، اور بعض اوقات آپ کو اپنی نظر پر بھی شبہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا تھا ۔ یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے ، حتی کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزر رہی ہے ۔ رہی آپ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں آپ قرآن کی کوئی آیت بھول گئے ہوں ، یا کوئی آیت آپ نے غلط پڑھ ڈالی ہو ، یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو ، یا کوئی ایسا کلام آپ نے وحی کی حیثیت سے پیش کردیا ہو جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو ، یا نماز آپ سے چھوٹ گئی ہو اور اس کے متعلق بھی کبھی آپ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو ۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی ، اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادوگر کے جادو نے چت کردیا ۔ لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ اپنی جگہ اسے محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے ۔ آخر کار ایک روز آپ حضرت عائشہ کے ہاں تھے کہ آپ نے بار بار اللہ تعالیٖ سے دعا مانگی ۔ اسی حالت میں نیند آگئی یا غنودگی طاری ہوئی اور پھر بیدار ہو کر آپ نے حضرت عائشہ سے کہا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتا دی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ کیا بات ہے؟آپ نے فرمایا دو آدمی ( یعنی فرشتے دو آدمیوں کی صورت میں ) میرے پاس آئے ۔ ایک سرہانے کی طرف تھا اور دوسرا پائینتی کی طرف ۔ ایک نے پوچھا انہیں کیا ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے ۔ اس نے پوچھا کس نے کیا ہے؟ جواب دیا لَبِید بن اَعُصَم نے ۔ پوچھا کس چیز میں کیا ہے؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں میں ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر ۔ پوچھا وہ کہاں ہے؟ جواب دیا بنی زُریق کے کنویں ذی اَرُوان ( یا ذَرُوان ) کی تہ کے پتھر کے نیچے ہے ۔ پوچھا اب اس کے لیے کیا کیا جائے؟ جواب دیا کہ کنویں کا پانی سونت دیا جائے اور پھر پتھر کے نیچے سے اس کو نکالا جائے ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت عمّار بن یاسر اور حضرت زبیر ( رضی اللہ عنہم ) کو بھیجا ۔ ان کے ساتھ جُبَیر بن اِیاس الزرقی اور قیس بن مِحصن الزرقی ( یعنی بنی زریق کے یہ دو اصحاب ) بھی شامل ہوگئے ۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی چند اصحاب کے ساتھ وہاں پہنچ گئے ۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کر لیا گیا ۔ اس میں کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑھی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں ۔ جبریل علیہ السلام نے آکر بتایا کہ آپ معوِّذتین پڑھیں ۔ چنانچہ آپ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہے ۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں گھل گئیں ، ساری سوئیاں نکل گئیں ، اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہو گئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا تھا ، پھر کھل گیا ۔ اس کے بعد آپ نے لَبِید کو بلا کر باز پرس کی ۔ اس نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور آپ نے اس کو چھوڑدیا ، کیونکہ اپنی ذات کے لیے آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا ۔ یہی نہیں بلکہ آپ نے اس معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے اللہ نے شفا دی ہے ۔ اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو بھڑکاؤں ۔ یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا ۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو ۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا ، اگر آپ گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے ، اگر آپ کو بچھو کاٹ سکتا تھا ، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے ، اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ نے آپ سے وعدہ کیا تھا ، تو آپ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہوسکتے تھے ۔ نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے ، یہ بات تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے ۔ سورہ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ کے مقابلے میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزارہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کردیا جو وہاں دونوں کا مقابلے دیکھنے کے لیے جمع ہوا تھا ( سَحَرُوا اَعیُن الناسِ ۔ آیت ۱۱٦ ) اور سورہ طٰہٰ میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں ہی نے نہیں حضرت موسی نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آرہی ہیں اور اس سے حضرت موسیٰ خوف زدہ ہو گئے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے ، ذرا اپنا عصا پھینکو ( فَاِذَا حِبَالُہُم وَعِصِیُّہُم یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سحرِہِم اَنَّہَا تَسعیٰ ۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ مُّوسی ۔ قُلنا لا تخَف اِنَکَ انت الاعلیٰ ۔ وَاَلق ما فی یَمِینِک ۔ آیات ٦٦ تا ٦۹ ) ۔ رہا یہ اعتراض کہ یہ تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سحرزدہ آدمی کہتے تھے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحرزدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں ، بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کسی جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کردیا ہے اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت ودوزخ کے افسانے سنا رہے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا تھا ، نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بالکل غیر متاثر رہی ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ جادو کو محض اَوہام کے قبیل کی چیز قرار دیتے ہیں ان کی یہ رائے صرف اس وجہ سے ہے کہ جادو کے اثرات کی کوئی سائنٹفک توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں ، مگر سائنٹفک طریقہ سے یہ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کیسے رونما ہوتی ہیں ۔ اس طرح کی توجیہ پر اگر ہم قادر نہیں ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس چیز ہی کا انکار کردیا جائے جس کی ہم توجیہ نہیں کرسکتے ۔ جادو دراصل ایک نفسیاتی اثر ہے جس نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی چیز ہے ، مگر اس کا اثر جسم پر یہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بدن میں تَھر تَھری چھوٹ جاتی ہے ۔ دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ، مگر انسان کا نفس اور اس کے حواس اسے متاثر ہوکر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حقیقت تبدیل ہوگئی ہے ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کی طرف جادوگروں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکی تھیں وہ واقعی سانپ نہیں بن گئی تھیں ، لیکن ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں پر ایسا جادو ہوا کہ سب نے انہیں سانپ ہی محسوس کیا ، اور حضرت موسی تک کے حَواس جادو کی اس تاثیر سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ اسی طرح قرآن ( البقرہ ، آیت ۱۰۲ ) میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دے ۔ یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا ، اور ظاہر ہے کہ اگر تجربے سے لوگوں کو اس عمل کی کامیابی معلوم نہ ہوتی تو وہ اس کے خریدار نہ بن سکتے تھے ۔ بلا شبہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بندوق کی گولی اور ہوائی جہاز سے گرنے والے بم کی طرح جادو کا مؤثر ہونا بھی اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں ہے ، مگر جو چیز ہزارا ہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو اس کے وجود کو جھٹلا دینا محض ایک ہٹ دھرمی ہے ۔ اسلام میں جھاڑ پھونک کی حیثیت : تیسرا مسئلہ ان سورتوں کے معاملہ میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور یہ کہ جھاڑ پھونک بجائے خود مؤثر بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت صحیح احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات کو سوتے وقت ، اور خاص طور پر بیماری کی حالت میں معوِّذتین ، یا بعض روایات کے مطابق مُعوِّذات ( یعنی قل ہو اللہ اور معوِّذتین ) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونکتے اور سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر ، جہاں جہاں تک بھی آپ کے ہاتھ پہنچ سکتے ، انہیں پھیرتے تھے ۔ آخری بیماری میں جب آپ کے لیے خود ایسا کرنا ممکن نہ رہا تو حضرت عائشہ نے یہ سورتیں ( بطور خود یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ) پڑھیں اور آپ کے دست مبارک کی برکت کے خیال سے آپ ہی کے ہاتھ لے کر آپ کے جسم پر پھیرے ۔ اس مضمون کی روایات صحیح سندوں کے ساتھ بخاری ، مسلم ، نَسائی ، ابن ماجہ ، ابو داؤد اور مؤطا امام مالک میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی سے واقف نہ ہوسکتا تھا ۔ اس معاملہ میں پہلے مسئلہ شرعی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ احادیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی طویل روایت آئی ہے جس کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت کے وہ لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں ، نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں ، نہ فال لیتے ہیں ، بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ( مسلم ) حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے داغنے سے علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی وہ اللہ پر توکل سے بے تعلق ہوگیا ( ترمذی ) ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے سوائے معوّذتین یا معوِّذات کے ( ابو داؤد ، احمد ، نسائی ، ابن حِبّان ، حاکم ) ۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرمادیا تھا ، لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو ، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے ، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے ، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفا دینے والی ہے ، بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا ۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہوجانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں: طَبَرانی نے صغیر میں حضرت علی کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ نماز کی حالت میں بچھو نے کاٹ لیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ۔ بچھو پر خدا کی لعنت ، یہ نہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو ۔ پھر پانی اور نمک منگوایا اور جہاں بچھو نے کاٹا تھا وہاں آپ نمکین پانی ملتے جاتے تھے اور قل یا ایہا الکافرون ، قل ہو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے ۔ عثمان بن ابی العاص الثقفی کے متعلق مسلم ، موطا ، طبرانی اور حاکم میں تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے ایک درد محسوس ہوتا ہے جو مجھ کو مارے ڈالتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے ، پھر تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو کہ اَعوذ باللہ وقدرتہ من شر ما اجد واحاذر میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کے شر سے جس کو میں محسوس کرتا ہوں اور جس کے لاحق ہونے کا مجھے خوف ہے ۔ موطا میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ عثمان بن ابی العاص نے کہا کہ اس کے بعد میرا وہ درد جاتا رہا ، اور اسی چیز کی تعلیم میں اپنے گھر والوں کو دیتا ہو ۔ مسند احمد اور طحاوی میں طلق بن علی کی روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بچھو نے کاٹ لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر پڑھ کر پھونکا اور اس جگہ پر ہاتھ پھیرا ۔
مضبوط پناہ گاہیں ناقابل تسخیر مدافعت اور شافی علاج ٭٭ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سورت کو اور اس کے بعد کی سورت کو قرآن شریف میں نہیں لکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری گواہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا قل اعوذ برب الفلق الخ ، تو میں نے بھی یہی کہا ۔ پھر کہا قل اعوذ برب الناس الخ ، تو میں نے یہی کہا پس ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان دونوں سورتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہا آپ کے بھائی حضرت ابن مسعود تو ان دونوں کو قرآن شریف میں سے کاٹ دیا کرتے تھے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھ سے کہا گیا کہو میں نے کہا پس ہم بھی کہتے ہیں جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ( ابوبکر حمیدی ) مسند میں بھی یہ روایت الفاظ کے تغیر و تبدل کے ساتھ مروی ہے ، اور بخاری شریف میں بھی ، مسند ابو یعلی وغیرہ میں ہے کہ ابن مسعود ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے اور نہ قرآن میں انہیں شمار کرتے تھے ، بلکہ قاریوں اور فقہیوں کے نزدیک مشہور بات یہی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے ، شاید انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہو اور تواتر کے ساتھ ان تک نہ پہنچا ہو ، پھر یہ اپنے اس قول سے رجوع کر کے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آتے ہیں ، صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان سورتوں کو ائمہ کے قرآن میں اخل کیا جس کے نسخے چاروں طرف پھیلے ، وللہ الحمد والمنہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰعنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا چند آیتیں مجھ پر اس رات ایسی نازل ہوئی ہیں جن جیسی کبھی دیکھی نہیں گئیں ، پھر آپ نے ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی ، یہ حدیث مسند احمد ، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں آپ کی سواری کی نکیل تھامے چلا جا رہا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا ، اب آؤ تم سوار ہو جاؤ میں نے اس خیال سے آپ کی بات نہ مانوں گا تو نافرماین ہو گی سوار ہونا منظور کر لیا تھوڑی دیر کے بعد میں اتر گیا اور حضور سوار ہوگئے پھر آپ نے فرمایا عقبہ میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سکھایئے ۔ پس آپ نے مجھے سورہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھائیں پھر نماز کھڑی ہوئی آپ نے نماز پڑھائی اور ان ہی دونوں سورتوں کی تلاوت کی پھر مجھ سے فرمایا تو نے دیکھ لیا ؟ سن جب تو سوئے اور جب کھڑا ہوا نہیں پڑھ لیا کر ، ترمذی ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کا حکم دیا ۔ یہ حدیث بھی ابو داؤد ، ترمذی اور نسائی میں ہے امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ان جیسی سورتیں تو نے پڑھی ہی نہیں ، حضرت عقبہ والی حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے ساتھ آپ کا ہونا مذکور ہے اس کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ سورتیں بتائیں تو مجھے کچھ زیادہ خوش ہوتے نہ دیکھ کر فرمایا کہ شاید تو انہیں چھوٹی سی سورتیں سمجھتا ہے سن نماز کے قیام میں ان جیسی سورتوں کی قرأت اور ہے ہی نہیں ۔ نسائی شریف کی حدیث میں ہے کہ ان جیسی سورتیں کسی پناہ پکڑنے والے کے لئے اور نہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ سے یہ سورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائیں پھر فرمایا نہ تو دعا کی ان جیسی اور سورتیں ہیں نہ تعویذ کی ، ایک روایت میں ہے صبح کی فرض نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی دونوں سورتوں سے پڑھائی ، اور حدیث میں ہے حضرت عقبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے جاتے ہیں اور آپ کے قدم پر ہاتھ رکھ کر عرض کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سورہ ہود یا سورہ یوسف پڑھائے آپ نے فرمایا اللہ کے پاس نفع دینے والی کوئی سورت قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ نہیں اور حدیث میں ہے کہ آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے ان دونوں سورتوں سے افضل سورت اور کوئی نہیں ، پس بہت سی حدیثیں اپنے تواتر کی وجہ سے اکثر علماء کے نزدیک قطعبیت کا فائدہ دیتی ہیں اور وہ حدیث بھی بیان ہو چکی کہ آپ نے ان دونوں سورتوں اور سورہ اخلاص کی نسبت فرمایا کہ چاروں کتابوں میں ان جیسی سورتیں نہیں اتریں ، نسائی وغیرہ میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے سواریاں کم تھیں باری باری سوار ہوتے تھے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھ کر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں اور فرمایا جب نماز پڑھو تو انہیں پڑھا کرو ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص حضرت عقبہ بن عامر ہوں گے ، واللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ بن سلام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں سمجھے؟ وہ نہ سمجھے کہ کیا کہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ قل ھو اللہ پڑھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح پناہ مانگا کر ۔ اس جیسی پناہ مانگنے کی اور سورت نہیں ( نسائی ) نسائی کی اور حدیث میں ہے کہ حضرت جابر سے یہ دونوں سورتیں آپ نے پڑھوائیں پھر فرمایا انہیں پڑھتا رہ ان جیسی سورتیں تو اور پڑھے گا ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی وہ حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر ھپونک کر اپنے سر چہرے اور سامنے کے جسم پر پھیر لیتے تھے ، موطامالک میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیا کرتے تھے جب آپ کی بیماری سخت ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا معوذات پڑھ کر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر پھیرتی تھیں اس عمل کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی برکت کا ہوتا تھا سورہ ن کی تفسیر کے آخر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی آنکھوں سے پناہ مانگا کرتے تھے جب یہ دونوں سورتیں اتریں تو آپ نے انہیں لے لیا اور باقی سب چھوڑ دیں ، امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ۔