Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ وَلَا لِيَـهۡدِيَهُمۡ سَبِيۡلًا ؕ‏ ﴿137﴾
جن لوگوں نے ایمان قبول کر کے پھر کفر کیا ، پھر ایمان لاکر پھر کفر کیا پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے ، اللہ تعالٰی یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا ۔
ان الذين امنوا ثم كفروا ثم امنوا ثم كفروا ثم ازدادوا كفرا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم سبيلا
Indeed, those who have believed then disbelieved, then believed, then disbelieved, and then increased in disbelief - never will Allah forgive them, nor will He guide them to a way.
Jin logon ney eman qabool ker kay phir kufur kiya phir eman laa ker phir kufur kiya phir apney kufur mein barh gaye Allah Taalaa yaqeenan unhen na bakshay ga aur na unhen raah-e-hidayat sujhaye ga.
جو لوگ ایمان لائے ، پھر کافر ہوگئے ، پھر ایمان لائے ، پھر کافر ہوگئے ، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ، اللہ ان کو بخشنے والا نہیں ہے ، اور نہ انہیں راستے پر لانے والا ہے ۔ ( ٨٢ )
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر اور کفر میں بڑھے ( ف۳۵۰ ) اللہ ہرگز نہ انہیں بخشے ( ف۳۵۱ ) نہ انہیں راہ دکھائے ،
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے ، پھر کفر کیا ، پھر ایمان لائے ، پھر کفر کیا ، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ، 168 تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی ان کو راہ راست دکھائے گا ۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے ، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے ، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہرگز ( یہ ارادہ فرمانے والا ) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ ( یہ کہ ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :168 اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے دین محض ایک غیر سنجیدہ تفریح ہے ۔ ایک کھلونا ہے جس سے وہ اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں ۔ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اٹھی ، مسلمان ہو گئے اور جب دوسری لہر اٹھی ، کافر بن گئے ۔ یا جب فائدہ مسلمان بن جانے میں نظر آیا ، مسلمان بن گئے اور جب معبود منفعت نے دوسری طرف جلوہ دکھایا تو اس کی پوجا کرنے کے لیے بے تکلف اسی طرف چلے گئے ۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے پاس نہ مغفرت ہے نہ ہدایت ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض کافر بن جانے ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے ، اسلام کے خلاف خفیہ سازشیں اور علانیہ تدبیریں شروع کر دے ، اور اپنی قوت اس سعی و جہد میں صرف کرنے لگے کہ کفر کا بول بالا ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے دین کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے ۔ یہ کفر میں مزید ترقی ، اور ایک جرم پر پے در پے جرائم کا اضافہ ہے جس کا وبال بھی مجرد کفر سے لازماً زیادہ ہونا چاہیے ۔
صحبت بد سے بچو ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مر جائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا ، نہ فلاح ، نہ اللہ اسے بخشے ، نہ راہ راست پر لائے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کر لے ۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخرش ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں ، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ، پس اللہ تعالیٰ ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور آیت میں ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ) 35 ۔ فاطر:10 ) یعنی عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے ، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو ، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا ، مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لئے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہو گا ۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو ، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے ۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورہ انعام کی جو مکیہ ہے یہ ( وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ ) 6 ۔ الانعام:68 ) جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے ۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَۨا ) 4 ۔ النسآء:140 ) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ( وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:69 ) سے منسوخ ہو گیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لکین نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں ۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے ۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کیساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا ۔