Surah

Information

Surah # 113 | Verses: 5 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 20 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَمِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِى الۡعُقَدِۙ‏ ﴿4﴾
اور گرہ ( لگا کر ان ) میں پھونکنے والیوں کے شر سے ( بھی )
و من شر النفثت في العقد
And from the evil of the blowers in knots
Aur girah ( laga ker inn ) mein phonknay walon kay sher say ( bhi ) .
اور ان جانوں کے شر سے جو ( گنڈے کی ) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں ۔ ( ٣ )
( ٤ ) اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں ( ف۵ )
اور گرہوں میں پھونکنے والوں ﴿یا والیوں﴾ کے شر سے ، 6
اور گرہوں میں پھونک مارنے والی جادوگرنیوں ( اور جادوگروں ) کے شر سے
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 6 اصل الفاظ ہیں نَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ ۔ عقد جمع ہے عقدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں ، جیسی مثلا تاگے یا رسی میں ڈالی جاتی ہے ۔ نفث کے معنی پھونکنے کے ہیں ۔ نفاثات جمع ہے نفاثہ کی جس کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں گے ، اور اگر اسے مونث کا صیغۃ سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والی عورتیں بھی ہوسکتی ہیں ، اور نفوس یا جماعتیں بھی ، کیونکہ عربی میں نفس اور جماعت دونوں مونث ہیں ۔ گرہ میں پھونکنے کا لفظ اکثر ، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے ، کیونکہ جادوگر عموما کسی ڈور یا تاگے میں گرہ دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں طلوع فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جادوگروں یا جادوگرنیوں کے شر سے ۔ اس مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آکر حضور کو معوذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی ، اور معوذتین میں یہی ایک فقرہ ہے جو براہ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے ۔ ابو مسلم اصفہانی اور زمخشری نے نفاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں کی مکاری ، اور مردوں کے عزائم اور آراء اور خیالات پر ان کی اثر اندازی ہے اور اس کو جادوگری سے تشبیہ دی گئی ہے ، کیونکہ عورتوں کی محبت میں مبتلا ہوکر آدمی کا وہ حال ہوجاتا ہے گویا اس پر جادو کردیا گیا ہے ۔ یہ تفسیر اگرچہ پر لطف ہے ، لیکن اس تفسیر کے خلاف ہے جو سلف سے مسلم چلی آتی ہے ، اور ان حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں رکھتی جن میں معوذتین نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں ۔ جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں چونکہ دوسرے شخص پر برا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواح خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں اسے کفر کہا گیا ہے: ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا ، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔ ( البقرہ 102 ) لیکن اگر اس میں کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعل شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات ایسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کر دینے والے ہیں ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا سات غارت گر چیزوں سے پرہیز کرو ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، جادو ، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلنا ، اور بھولی بھالی عفیف مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا ۔