Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَّقَوۡلِهِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِيۡحَ عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ‌ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ وَمَا صَلَبُوۡهُ وَلٰـكِنۡ شُبِّهَ لَهُمۡ‌ ؕ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ اخۡتَلَـفُوۡا فِيۡهِ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ‌ ؕ مَا لَهُمۡ بِهٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ‌ ۚ وَمَا قَتَلُوۡهُ يَقِيۡنًا ۢ ۙ‏ ﴿157﴾
اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ( عیسیٰ ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا ۔
و قولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله و ما قتلوه و ما صلبوه و لكن شبه لهم و ان الذين اختلفوا فيه لفي شك منه ما لهم به من علم الا اتباع الظن و ما قتلوه يقينا
And [for] their saying, "Indeed, we have killed the Messiah, Jesus, the son of Mary, the messenger of Allah ." And they did not kill him, nor did they crucify him; but [another] was made to resemble him to them. And indeed, those who differ over it are in doubt about it. They have no knowledge of it except the following of assumption. And they did not kill him, for certain.
Aur yun kehney kay baees kay hum ney Allah kay rasool maseeh essa bin marium ko qatal ker diya halankay na to enhon ney ussay qatal kiya na sooli charhaya bulkay inn kay liye unn ( essa ) ki shabeeh bana diya gaya tha. Yaqeen jano kay hazrat essa ( alh-e-salam ) kay baray mein ikhtilaf kerney walay unn kay baray mein shak mein hain unhen iss ka koi yaqeen nahi ba-juz takhmeeni baaton per amal kerney kay itna yaqeeni hai kay enhon ney unhen qatal nahi kiya.
اور یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے ، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا ۔ ( ٩١ ) اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، ( ٩٢ ) انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے ، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو قتل نہیں کر پائے ۔
اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا ( ف۳۹۵ ) اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اسے قتل ( ۱۵۷ ) کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے ان کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا ( ف۳۹٦ ) اور وہ جو اس کے بارہ میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ( ف۳۹۷ ) انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں ( ف۳۹۸ ) مگر یہی گمان کی پیروی ( ف۳۹۹ ) اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ( ف٤۰۰ )
اور 190 خود کہا کہ ہم نے مسیح ، عیسٰی ابن مریم ، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 191 حالانکہ 192 فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا ۔ 193 اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے ، محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ 194 انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا ،
اور ان کے اس کہنے ( یعنی فخریہ دعوٰی ) کی وجہ سے ( بھی ) کہ ہم نے اﷲ کے رسول ، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے ، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر ( ہوا یہ کہ ) ان کے لئے ( کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا ) ہم شکل بنا دیا گیا ، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس ( قتل کے حوالے ) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں ، انہیں ( حقیقتِ حال کا ) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی ( کر رہے ہیں ) ، اور انہوں نے عیسٰی ( علیہ السلام ) کو یقیناً قتل نہیں کیا
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :191 یعنی جرأت مجرمانہ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ رسول کو رسول جانتے تھے اور پھر اس کے قتل کا اقدام کیا اور فخریہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے ۔ اوپر ہم نے گہوارے کے واقعہ کا جو حوالہ دیا ہے اس پر غور کرنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہودیوں کے لیے مسیح علیہ السلام کی نبوت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی ۔ پھر جو روشن نشانیاں انہوں نے حضرت موصوف سے مشاہدہ کیں ( جن کا ذکر سورہ آل عمران رکوع ۵ میں گزر چکا ہے ) ان کے بعد تو یہ معاملہ بالکل ہی غیر مشتبہ ہو چکا تھا کہ آنجناب اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ اس لیے واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہم اس جرم کا ارتکاب اس شخص کے ساتھ کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہے ۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے اسے قتل کر دے ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز و اطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں ۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں جو ان کی برائیوں پر انہیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے ان کو روکے ۔ ایسے لوگ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں ، ہمیشہ بد کردار قوموں میں قید اور قتل کی سزائیں پاتے ہی رہے ہیں ۔ تلمود میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے جب بیت المَقْدِس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا ۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اسے ایک تیر کا نشان نظر آیا ۔ اس نے یہودیوں سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے جواب دیا”یہاں زکریا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا ۔ وہ ہماری برائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا ۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آگئے تو ہم نے اسے مار ڈالا“ ۔ بائیبل میں یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اخلاقیاں حد سے گزر گئیں اور حضرت یرمیاہ نے ان کو متنبہ کیا کہ ان اعمال کی پاداش میں خدا تم کو دوسری قوموں سے پامال کرادے گا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ شخص کسدیوں ( کلدانیوں ) سے ملا ہوا ہے اور قوم کا غدار ہے ۔ اس الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا ۔ خود حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے ہی حضرت یحییٰ کا معاملہ پیش آچکا تھا ۔ یہودی بالعموم ان کو نبی جانتے تھے اور کم از کم یہ تو مانتے ہی تھے کہ وہ ان کی قوم کے صالح ترین لوگوں میں سے ہیں ۔ مگر جب انہوں نے ہیرو دیس ( والی ریاست یہودیہ ) کے دربار کی برائیوں پر تنقید کی تو اسے برداشت نہ کیا گیا ۔ پہلے جیل بھیجے گئے ، اور پھر والی ریاست کی معشوقہ کے مطالبے پر ان کا سر قلم کر دیا گیا ۔ یہودیوں کے اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو سولی پر چڑھانے کے بعد سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہو“ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے” ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :192 یہ پھر جملہ معترضہ ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :193 یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اٹھا لیے گئے تھے اور یہ کہ مسیحیوں اور یہودیوں ، دونوں کا یہ خیال کہ مسیح نے صلیب پر جان دی ، محض غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غالباً پیلاطس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی ، مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سنا چکا ، اور جب یہودیوں نے مسیح جیسے پاک نفس انسان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی جان کو زیادہ قیمتی ٹھیرا کر اپنی حق دشمنی و باطل پسندی پر آخری مہر بھی لگا دی ، تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اٹھالیا ۔ بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذات مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص تھا جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسیٰ ابن مریم سمجھ لیا ۔ تاہم ان کا جرم اس سے کم نہیں ہوتا ۔ کیونکہ جس کو انہوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا ، جس کے منہ پر تھوکا اور جسے ذلت کے ساتھ صلیب چڑھایا اس کو وہ عیسیٰ بن مریم ہی سمجھ رہے تھے ۔ اب یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لیے مشتبہ ہو گیا ۔ چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعہ معلومات نہیں ہے اس لیے مجرد قیاس و گمان اور افواہوں کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس شبہ کی نوعیت کیا تھی جس کی بنا پر یہودی یہ سمجھے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو صلیب دی ہے درآں حالے کہ عیسیٰ ابن مریم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :194 اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں ۔ ان میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر کوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں جن کی کثرت خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لیے بھی مشتبہ ہی رہی ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذلت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کسی جگہ کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا ۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ اتارے جانے کے بعد ان میں جان تھی ۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسم انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھالی گئی ۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھائے گئے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں ۔
صحیح بخاری میں ہے اس وقت کیا ہو گا ، جب تم میں مسیح بن مریم اتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہو گا ۔ ابو داؤد ، مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام سب ایک باپ کے بیٹے بھائی کی طرح ہیں ، مائیں جدا جدا اور دین ایک ۔ عیسیٰ بن مریم سے زیادہ تر نزدیک میں ہوں اس لئے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ، یقیناً وہ اترنے والے ہیں پس تم انہیں پہچان رکھو ۔ درمیان قد ہے ، سرخ سفید رنگ ہے ۔ وہ دو گیروے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے اوڑھے اور باندھے ہوں گے ، بال خشک ہونے کے باوجود ان کے سر سے قطرے ٹپک رہے ہوں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ قبول نہ کریں گے ، لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں گے ، ان کے زمانے میں تمام ملتیں مٹ جائیں گی ، صرف اسلام ہی اسلام رہے گا ، ان کے زمانے میں اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کرے گا ۔ پھر زمین پر امن ہی امن ہو گا یہاں تک کہ کالے ناگ اونٹوں کے ساتھ ، چیتے گایوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے ، انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے ، چالیس برس تک ٹھہریں گے ، پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے ۔ ابن جریر کی اسی روایت میں ہے ، آپ لوگوں سے اسلام کے لئے جہاد کریں گے ، اس حدیث کا ایک ٹکڑا بخاری شریف میں بھی ہے اور روایت میں ہے سب سے زیادہ قریب تر حضرت عیسیٰ سے دنیا اور آخرت میں میں ہوں ۔ صحیح مسلم میں ہے قیامت قائم نہ ہو گی ، جب تک رومی اعماق یا والق میں نہ اتریں اور ان کے مقابلہ کے لئے مدینہ سے مسلمانوں کا لشکر نہ نکلے گا ، جو اس وقت تمام زمین کے لوگوں سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے ، جب صفیں بندھ جائیں گی تو رومی کہیں گے تم سے ہم لڑنا نہیں چاہتے ، ہم میں سے جو دین بدل کر تم میں ملے ہم ان سے لڑنا چاہتے ہیں تم بیچ میں سے ہٹ جاؤ لیکن مسلمان کہیں گے واللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے ان کمزور بھائیوں کو تمہارے حوالے کر دیں ۔ چنانچہ لڑائی شروع ہو گی مسلمانوں کے اس لشکر کا تہائی حصہ تو شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہو گا ، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ ہرگز قبول نہ فرمائے گا اور تہائی حصہ شہید ہو جائے گا ، جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل شہید ہیں لیکن آخری تہائی حصہ فتح حاصل کرے گا اور رومیوں پر غالب آ جائے گا ، پھر یہ کسی فتنے میں نہ پڑیں گے ، قسطنطنیہ کو فتح کریں گے ، ابھی تو وہ اپنی تلواریں زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے مال غنیمت تقسیم کر ہی رہے ہوں گے جو شیطان چیخ کر کہے گا کہ تمہارے بال بچوں میں دجال آ گیا ، اس کے اس جھوٹ کو سچ جان کر مسلمان یہاں سے نکل کھڑے ہوں گے ، شام میں پہنچیں گے ، دشمنوں سے جنگ آزما ہونے کے لئے صفیں ٹھیک کر رہے ہوں گے کہ دوسری جانب نماز کی اقامت ہو گی اور حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ، ان کی امامت کرائیں گے ، جب دشمن رب انہیں دیکھے گا تو اسی طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے ، اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑ دیں ، جب بھی وہ گھلتے گھلتے ختم ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور آپ اپنے حربے پر اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں معراج والی رات میں نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی ، آپس میں قیامت کی نسبت بات چیت ہونے لگی ، ابراہیم علیہ السلام نے اپنی لاعلمی ظاہر کی ، اس طرح موسیٰ علیہ السلام نے بھی ، لیکن حضرت عیسیٰ نے فرمایا اس کے آنے کا ٹھیک وقت تو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی نہیں جانتا ، ہاں مجھ سے میرے رب نے جو عہد لیا ہے وہ یہ ہے کہ دجال نکلے گا اس کے ہمراہ دو شاخیں ہوں گی ، مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح سیسہ پگھلتا ہے ، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے پیچھے ایک کافر ہے اور اسے قتل کر لیں ، اللہ تعالیٰ ان سب کو غارت کر دے گا اور لوگ امن و امان کے ساتھ اپنے اپنے وطن اور شہروں کو لوٹ جائیں گے ، اب یاجوج ماجوج نکلیں گے ، ہر طرف سے چڑھ دوڑیں گے ، تمام شہرں کو روندیں گے ، جس جس چیز پر گذر ہو گا اسے ہلاک کر دیں گے ، جس پانی کے پاس سے گذریں گے پی جائیں گے ، لوگ پھر لوٹ کر میرے پاس آئیں گے ، میں اللہ سے دعا کروں گا ، اللہ ان سب کو ایک ساتھ فنا کر دے گا لیکن ان کے مردہ جسموں سے ہوا بگڑ جائے گی ، بدبو پھیل جائے گی ، پھر مینہ برسے گا اور اس قدر کہ ان کی تمام لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال دے گا ۔ بس اس وقت قیامت کی اس طرح آمد آمد ہو گی جس طرح پورے دن کی حاملہ عورت ہو کہ اس کے گھر والے نہیں جانتے کہ صبح کو بچہ ہو جائے یا شام کو ، رات کو پیدا ہو یا دن کو؟ مسند احمد میں ہے حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں ہیں ہم حضرت عثمان بن ابو العاص کے پاس جمعہ والے دن آئے کہ ہم اپنا لکھا ہوا قرآن ان کے قرآن سے ملائیں ، جب جمعہ کا وقت آیا تو آپ نے ہم سے فرمایا غسل کر لو پھر خوشبو لے آئے جو ہم نے ملی ، پھر ہم مسجد میں آئے اور ایک شخص کے پاس بیٹھ گئے جنہوں نے ہم سے دجال والی حدیث بیان کی پھر حضرت عثمان بن ابو العاص آئے ، ہم کھڑے ہو گئے ، پھر سب بیٹھ گئے ، آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمان کے تین شہر میں جائیں گے ، ایک دونوں سمندر کے ملنے کی جگہ پر ، دوسرا حیرہ میں اور تیسرا شام میں ، پھر تین گھبراہٹیں لوگوں کو ہوں گی ، پھر دجال نکلے گا ، یہ پہلے شہر کی طرف جائے گا ، وہاں کے لوگ تین حصوں میں بٹ جائیں گے ، ایک حصہ تو کہے گا ہم اس کے مقابلہ پر ٹھہرے رہیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے؟ دوسری جماعت گاؤں کے لوگوں میں مل جائے گی اور تیسری جماعت دوسرے شہر میں چلی جائے گی جو ان سے قریب ہو گا ، دجال کے ساتھ ستر ہزار لوگ ہوں گے ، جن کے سروں پر تاج ہوں گے ، ان کی اکثریت یہودیوں کی اور عورتوں کی ہو گی ، یہاں کے یہ مسلمان ایک گھاٹی میں سمٹ کر محصور ہو جائیں گے ، ان کے جانور جو چرنے چگنے کو گئے ہوں گے ، وہ بھی ہلاک ہو جائیں گے ، اس سے ان کے مصائب بہت بڑھ جائیں گے اور بھوک کے مارے برا حال ہو جائے گا ، یہاں تک کہ اپنی کمانوں کی تانیں سینک سینک کر کھا لیں گے ، جب سخت تنگی کا عالم ہو گا تو انہیں سمندر میں سے آواز آئے گی کہ لوگو تمہاری مدد آ گئی ، اس آواز کو سن کر یہ لوگ خوش ہوں گے ، کیونکہ آواز سے جان لیں گے کہ یہ کسی آسودہ شخص کی آواز ہے ، عین صبح کی نماز کے وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے ، ان کا امیر آپ سے کہے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے اور نماز پڑھایئے لیکن آپ کہیں گے کہ اس امت کے بعض بعض کے امیر ہیں ، چنانچہ انہی کا امیر آگے بڑھے گا اور نماز پڑھائے گا ، نماز سے فارغ ہو کر اپنا حربہ ہاتھ میں لے کر مسیح دجال کا رخ کریں گے ، دجال آپ کو دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا ، آپ اس کے سینہ پر وار کریں گے جس سے وہ ہلاک ہو جائے گا اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے ، لیکن انہیں کہیں امن نہیں ملے گا ، یہاں تک کہ اگر وہ کسی درخت تلے چھپیں گے تو وہ درخت پکار کر کہے گا کہ اے مومن یہ ایک کافر میرے پاس چھپا ہوا ہے اور اسی طرح پتھر بھی ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے اور اس سے ڈرانے میں ہی صرف کیا ، جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتداء سے لے کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں ، تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو اس سے آگاہ کرتے رہے ہیں ، میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو ، وہ یقینا تمہیں میں آئے گا ، اگر میری موجودگی میں آ گیا تو میں آپ اس سے نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنے آپ کو اس سے بچانا پڑے گا ۔ میں اللہ تعالیٰ کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں ۔ وہ شام و عراق کے درمیان نکلے گا ، دائیں بائیں خوب گھومے گا ، لوگو اے اللہ کے بندو! دیکھو دیکھو تم ثابت قدم رہنا ، سنو میں تمہیں اس کی ایسی صفت بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی ۔ وہ ابتداء میں دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، پھر وہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور کہے گا میں اللہ ہوں ، پس تم یاد رکھنا کہ اللہ کو ان آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا ، ہاں مرنے کے بعد دیدار باری تعالیٰ ہو سکتا ہے اور سنو وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا جسے پڑھا لکھا اور ان پڑھ غرض ہر ایمان دار پڑھ لے گا ۔ اس کے ساتھ آگ ہو گی اور باغ ہو گا اس کی آگ دراصل جنت ہو گی اور اس کا باغ دراصل جہنم ہو گا ، سنو تم میں سے جسے وہ آگ میں ڈالے ، وہ اللہ سے فریاد رسی چاہے اور سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے ، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی جیسے کہ خلیل اللہ پر نمرود کی آگ ہو گئی ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا کہ اگر میں تیرے مرے ہوئے باپ کو زندہ کر دوں تو تو مجھے رب مان لے گا وہ اقرار کرے گا ، اتنے میں دو شیطان اسکی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور ان سے کہیں گے بیٹے یہی تیرا رب ہے تو اسے مان لے ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا اسے آرے سے چروا کر دو ٹکڑے کروا دے گا ، پھر لوگوں سے کہے گا میرے اس بندے کو دیکھنا اب میں اسے زندہ کر دوں گا ، لیکن پھر بھی یہی کہے گا کہ اس کا رب میرے سوا اور ہے ، چنانچہ یہ اسے اٹھا بیٹھائے گا اور یہ خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دے گا میرا رب اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے ۔ اللہ کی قسم اب تو مجھے پہلے سے بھی بہت زیادہ یقین ہو گیا ۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مومن میری تمام امت سے زیادہ بلند درجہ کا جنتی ہو گا ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت عمر بن خطاب ہی ہوں گے آپ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا اور آسمان سے بارش ہو گی ، وہ زمین کو پیداوار اگانے کا حکم دے گا اور زمین سے پیداوار نکلے گی ، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس جائے گا وہ اسے نہ مانیں گے ، اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور ہلاک ہو جائیں گی ، ایک اور قبیلے کے پاس جائے گا جو اسے خدا مان لے گا ، اسی وقت اس کے حکم سے ان پر آسمان سے بارش برسے گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے گی ، ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہو جائیں گے ۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام کا گشت کرے گا ، ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہو جائیں گے ۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام زمین کا گشت کرے گا ، جب مدینہ کا رخ کرے گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لئے ہوئے پائے گا تو ضریب کی انتہائی حد پر ضریب احمر کے پاس ٹھہر جائے گا ، پھر مدینے میں تین بھونچال آئیں گے ، اس وجہ سے جتنے منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی ، سب مدینہ سے نکل کر اس کے لشکر میں مل جائیں گے اور مدینہ ان گندے لوگوں کو اس طرح اپنے میں سے دور پھینک دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو لاگ کر دیتی ہے ، اس دن کا نام یوم الخلاص ہو گا ۔ ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن عرب کہاں ہوں گے؟ فرمایا اولاً تو ہوں گے ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہو گی ، ان کا امام پچھلے پیروں پیچھے ہٹے گا تا کہ آپ آگے بڑھ کر امامت کرائیں لیکن آپ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو اور نماز پڑھاؤ ، اقامت تمہارے لئے کی گی ہے پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے گا ، فارغ ہو کر آپ فرمائیں گے ، دروازہ کھول دو ، پس کھول دیا جائے گا ، ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لئے ہوئے موجود ہو گا ، جن کے سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہو گا ، دجال آپ کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے اور ایک دم پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کر دے گا لیکن آپ فرمائیں گے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تو میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھائے تو اسے ٹال نہیں سکتا ۔ چنانچہ آپ اسے مشرقی باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور وہیں اسے قتل کریں گے ، اب یہودی بد حواسی سے منتشر ہو کر بھاگیں گے لیکن انہیں کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی ، ہر پتھر ہر درخت ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہو گا کہ اے مسلمان یہاں یہودی ہے ، آ اسے مار ڈال ، ہاں ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے یہ نہیں بولے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کا رہنا چالیس سال تک ہو گا ، سال آدھے سال کے برابر اور سال مہینہ بھر جیسا اور مہینہ جمعہ جیسا اور باقی دن مثل شرارہ کے ۔