Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيۡهِ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيۡزًا حَكِيۡمًا‏ ﴿158﴾
بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے ۔
بل رفعه الله اليه و كان الله عزيزا حكيما
Rather, Allah raised him to Himself. And ever is Allah Exalted in Might and Wise.
Bulkay Allah Taalaa ney unhen apni taraf utha liya aur Allah bara zabardast aur poori hikmaton wala hai.
بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار ، بڑا حکمت والا ہے
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا ( ف٤۰۱ ) اور اللہ غالب حکمت والا ہے ،
بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ، 195 اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے ۔
بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف ( آسمان پر ) اٹھا لیا ، اور اﷲ غالب حکمت والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :195 یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے ۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب رہا یہ سوال کہ اٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ۔ قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا ، اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی ۔ اس لیے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات ۔ لیکن قرآن کے انداز بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے کہ اٹھا ئے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو ، بہرحال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمولی نوعیت کا ہے ۔ اس غیر معمولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے: ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و روح سمیت اٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ان اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ الوہیت مسیح کا قائل ہوا ہے ، لیکن اس کے باوجود قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہ وہی”رفع“ ( Ascension ) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کتاب مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو ۔ دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السلام کا اٹھایا جانا ویسا ہی اٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اٹھایا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَاہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ ”یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی ۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کرنا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا“ ۔ تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اسے اللہ نے اٹھا لیا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ ” اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے“ ۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزون و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوت قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہوا ہو ۔ اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ( آیت ۵۵ ) ۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر ۵۱ میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبض روح ، اور قبض روح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے ۔ لہٰذا یہ ان قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبض روح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبض روح و جسم کا واقعہ تمام نوع انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے ۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں ۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے ان قرائن میں ایک اور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو الٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاسد اعتقاد ، یعنی الوہیت مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا ۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت ان کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں ( تفسیر سورہ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے ) ۔ ان سے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرین قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا ؟
صبح ہی ایک شخص شہر کے ایک دروازے سے چلے گا ، ابھی دوسرے دروازے تک نہیں پہنچا تو شام ہو جائے گی ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر ان چھوٹے دنوں میں ہم نماز کیسے پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا اندازہ کر لیا کرو جیسے ان لمبے دنوں میں اندازہ سے پڑھا کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس عیسیٰ بن مریم میری امت میں حاکم ہوں گے ، عادل ہوں گے ، امام ہوں گے ، با انصاف ہوں گے ، صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، جزیہ کو ہٹا دیں گے صدقہ چھوڑ دیا جائے گا پس بکری اور اونٹ پر کوشش نہ کی جائے گی ، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے گا ، ہر زہریلے جانور کا زہر ہٹا دیا جائے گا ، بچے اپنی انگلی سانپ کے منہ میں ڈالیں گے لیکن وہ انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا ، شیروں سے لڑکے کھیلیں گے نقصان کچھ نہ ہو گا ، بھیڑئے بکریوں کے گلے میں اس طرح پھریں گے جیسے رکھوالا کتا ہو تمام زمین اسلام اور اصلاح سے اس طرح بھر جائے گی جیسے کوئی برتن پانی سے لبالب بھرا ہوا ہو ، سب کا کلمہ ایک ہو جائے گا ، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی ، لڑائی اور جنگ بالکل موقف ہو جائے گی ، قریش اپنا ملک سلب کرلیں گے ، زمین مثل سفید چاندی کے منور ہو جائے گی اور جیسی برکتیں زمانہ آدم میں تھیں لوٹ آئیں گی ، ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہو گا ، ایک انار اتنا ہو گا کہ ایک جماعت کھائی اور سیر ہو جائے بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے گا ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی قیمت گر جانے کی کیا وجہ؟ فرمایا اس لئے کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے گی ۔ دریافت کیا گیا بیل کی قیمت بڑھ جانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا اس لئے کہ تمام زمین پر کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی ۔ دجال کے آنے سے تین سال پیشتر سے سخت قحط سالی ہو گی ، پہلے سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم الٰہی روک لیا جائے گا اور زمین کی پیداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے گا ، پھر دوسرے سال اللہ آسمان کو حکم دے گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے اور یہی حکم زمین کو اپنی پیداوار کی دو تہائیاں کم کر دے ، تیسرے سال آسمان بارش کا ایک قطرہ نہ برسے گا ، نہ زمین سے کوئی روئیدگی پیدا ہو گی ، تمام جانور اس قحط سے ہلاک ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے رہ جائیں گے ، آپ نے فرمایا ان کی غذا کے قائم مقام اس وقت ان کا لا الہ الا اللہ کہنا اور اللہ اکبر کہنا اور سبحان اللہ کہنا اور الحمد اللہ کہنا ہو گا ۔ امام ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے استاد نے اپنے استاد سے سنا وہ فرماتے تھے یہ حدیث اس قابل ہے کہ بچوں کے استاد اسے بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں تاکہ انہیں بھی یاد رہے یہ حدیث اس سند سے ہے تو غریب لیکن اس کے بعض حصوں کی شواہد دوسری حدیثیں ہیں ۔ اسی حدیث جیسی ایک حدیث نواس بن سمعان عنہ سے مروی ہے اسے بھی ہم یہاں ذکر کرتے ہیں صحیح مسلم شریف میں ہے ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور اس طرح اسے واضح بیان فرمایا کیا کہ ہم سمجھے ، کہیں مدینہ کے نخلستان میں وہ موجود نہ ہو پھر جب ہم لوٹ کر آپ کی طرف آئے تو ہمارے چہروں سے آپ نے جان لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ ہم نے دل کی بات کہہ دی تو آپ نے فرمایا ! دجال کے علاوہ مجھے تو تم سے اس سے بھی بڑا خوف ہے ، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے آپ بھگت لے گا ، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے آپ بھگت لے گا ، میں اپنا خلیفہ ہر مسلمان پر اللہ کو بناتا ہوں ، وہ جوان ہو گا ، آنکھ اس کی ابھری ہوئی ہو گی ، بس یوں سمجھ لو کہ عبدالعزیٰ بن قطن جیسا ہو گا ، تم میں جو اسے دیکھے اسے چاہئے کہ سورہ کہف کی شروع کی آیتیں پڑھے وہ شام و عراق کے درمیانی گوشے سے نکلے گا اور دائیں بائیں گشت کرے گا ، اے اللہ کے بندو! خوب ثابت قدم رہنا ، ہم نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ رہے گا کتنی مدت؟ آپ نے فرمایا چالیس دن ، ایک دن سال کے برابر ، ایک دن ایک مہینے کے برابر ، ایک دن جمعہ کے برابر اور باقی دن تمہارے معمولی دنوں جیسے ، پھر ہم نے دریافت کیا کہ جو دن سال بھر کے برابر ہو گا ، کیا اس میں ایک ہی دن کی نماز کافی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اندازہ کر لو اور نماز ادا کر لو ، ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی رفتار کی سرعت کیسی ہو گی؟ فرمایا ایسی جیسے بادل ہواؤں سے بھاگتے ہیں ۔ ایک قوم کو پانی طرف بلائے گا وہ مان لیں گے تو آسمان سے ان پر بارش برسے گی ، زمین سے کھیتی اور پھل اگیں گے ، ان کے جانور ترو تازہ اور زیادہ دودھ والے ہو جائیں گے ، ایک قوم کے پاس جائے گا جو اسے جھٹلائے گی اور اس کا انکار کر دے گی ، یہ وہاں سے لوٹے گا تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ رہے گا وہ بنجر زمین پر کھڑے ہو کر حکم دے گا کہ اے زمین کے خزانو نکل آؤ تو وہ سب نکل آئیں گے اور شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے پھریں گے ۔ یہ ایک نوجوان کو بلائے گا اور اسے قتل کرے گا اس کے ٹھیک دو ٹکڑے کر کے اتنی اتنی دور ڈال دے گا جو کسی تیر کی کمان سے نکلے ہوئے دوری ہو ، پھر اسے آواز دے گا تو وہ زندہ ہو کر ہنستا ہوا اس کے پاس آ جائے گا ۔ اب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا اور وہ دمشق کے سفید شرقی مینارے کے پاس دو چادریں اوڑھے دو فرشتوں کے پروں پر بازو رکھے ہوئے اتریں گے ، جب سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو مثل موتیوں کے وہ قطرے لڑھکیں گے ، جس کافر تک ان کا سانس پہنچ جائے وہ مر جائے گا اور آپ کا سانس وہاں تک پہنچے گا جہاں تک نگاہ پہنچے ، آپ دجال کا پیچھا کریں گے اور باب لد کے پاس اسے پا کر قتل کریں گے ، پھر ان لوگوں کے پاس آئیں گے ، جنہیں اللہ نے اسے فتنے سے بچایا ہو گا ، ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور جنت کے درجنوں کی انہیں خبر دیں گے ، اب اللہ کی طرف سے حضرت عیسیٰ کے پاس وحی آئے گی کہ میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تم میرے ان خاص بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ ، پھر یاجوج ، ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر طرف سے کودتے پھاندتے آ جائیں گے ، بحیرہ طبریہ پر ان کا پہلا گروہ آئے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا ، جب ان کے بعد ہی دوسرا گروہ آئے گا تو وہ اسے ایسا سوکھا ہوا پائے گا کہ وہ کہیں گے شاید یہاں کبھی پانی نہیں ہو گا ؟ حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی مومن وہاں اس قدر محصور رہیں گے کہ ایک بیل کا سرا نہیں اس سے بھی اچھا لگے جیسے تمہیں آج ایک سو دینار محبوب ہیں ، اب آپ اور مومن اللہ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے ، اللہ ان پر گردن کی گلٹی کی بیماری بھیج دے گا ، جس میں سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم میں فنا ہو جائیں گے ، پھر حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی زمین پر اتریں گے مگر زمین پر بالشت بھر بھی ایسی نہ پائیں گے جو ان کی لاشوں سے اور بدبو سے خالی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کریں گے تو بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر ایک قسم کے پرند اللہ تعالیٰ بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ چاہے ڈال آئیں گے ، پھر بارش ہو گی ، جس سے تمام زمین دھل دھلا کر ہتھیلی جیسی صاف ہو جائے گی ، پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل نکال اور اپنی برکتیں لوٹا ، اس دن ایک انار ایک جماعت کو کافی ہو گا اور وہ سب اس کے چھلکے تلے آرام حاصل کر سکیں گے ، ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے سے نہیں پیا جائے گا ، پھر پروردگار عالم ایک لطیف اور پاکیزہ ہوا چلائے گا جو تمام ایماندار مردوں عورتوں کی بغل تلے سے نکل جائے گی اور ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جائے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو آپس میں گدھوں کی طرح دھینگا مشتی میں مشغول ہو جائیں گے ان پر قیامت قائم ہو گی ۔ مسند احمد میں بھی ایک ایسی ہی حدیث ہے اسے ہم سورہ انبیاء کی آیت ( ﱑ اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:96 ) کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔