Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَيۡهِمۡ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَهُمۡ وَبِصَدِّهِمۡ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَثِيۡرًا ۙ‏ ﴿160﴾
جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالٰی کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبت احلت لهم و بصدهم عن سبيل الله كثيرا
For wrongdoing on the part of the Jews, We made unlawful for them [certain] good foods which had been lawful to them, and for their averting from the way of Allah many [people],
Jo nafees cheez inn kay liye halal ki gaee thi woh hum ney inn per haram ker di inn kay zulm kay baees aur Allah Taalaa ki raah say aksar logon ko rokney kay baees.
غرض یہودیوں کی سنگین زیادتی کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں ۔ ( ٩٤ ) اور اس لیے کہ وہ بکثرت لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے ۔
تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے ( ف٤۰٤ ) سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ ان کے لئے حلال تھیں ( ف٤۰۵ ) ان پر حرام فرمادیں اور اس لئے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا ،
غرض 198 ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویّہ کی بنا پر ، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ، 199
پھر یہودیوں کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر ( کئی ) پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ( پہلے ) ان کے لئے حلال کی جاچکی تھیں ، اور اس وجہ سے ( بھی ) کہ وہ ( لوگوں کو ) اﷲ کی راہ سے بکثرت روکتے تھے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :198 جملہ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :199 یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں ، بلکہ اس قدر بے باک مجرم بن چکے ہیں کہ دنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے ، اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے ، اور راہ حق کی طرف بلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلہ میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں ، درآں حالے کہ یہ کم بخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں ۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیا اور یہودی رہنمائی ہی نے پروان چڑھایا ہے ۔ ان نام نہاد اہل کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظام زندگی اور نظام حکومت خدا کے صریح انکار پر ، خدا سے کھلم کھلا دشمنی پر ، خدا پرستی کو مٹا دینے کے علی الاعلان عزم و ارادہ پر تعمیر کیا گیا اس کے موجد و مخترع اور بانی و سربراہ کار موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں ۔ اشتراکیت کے بعد زمانہ جدید میں گمراہی کا دوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے ۔
یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں ، اس میں تحریف کرلیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں ، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے ، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں ، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت ( كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:93 ) یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں ، جیسے سورہ انعام میں فرمایا آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) 16 ۔ النحل:118 ) یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو ، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی ، یہ اس لئے کہ یہ باغی ، طاغی ، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث ( جو ان کی پرانی عادت تھی ) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے ۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے ، انہیں جھٹلاتے تھے ، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے ، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کر دیں ، ان کفار کے لئے درد ناک عذاب تیار ہیں ۔ ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں ، اس جملے کی تفسیر سورہ آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو با ایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ، حضرت ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعید ، حضرت اسید بن عبید رضی اللہ عنہم ہیں ، جو اسلام قبول کر چکے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت ( والمقیمین الصلوۃ ) تمام ائمہ کے قرآن میں اور ابی بن کعب کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے صحیفہ میں آیت ( والمقیمون الصلوۃ ) ہے ۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے ، جیسے آیت ( وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت ( بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ) 2 ۔ البقرۃ:4 ) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں ، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے واللہ اعلم ، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہو سکتے ہیں واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی ، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے ۔