Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡکُمُ الۡغَمَامَ وَاَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكُمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰى‌ؕ كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ‌ؕ وَمَا ظَلَمُوۡنَا وَلٰـكِنۡ كَانُوۡآ اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿57﴾
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا ( اور کہہ دیا ) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا ، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔
و ظللنا عليكم الغمام و انزلنا عليكم المن و السلوى كلوا من طيبت ما رزقنكم و ما ظلمونا و لكن كانوا انفسهم يظلمون
And We shaded you with clouds and sent down to you manna and quails, [saying], "Eat from the good things with which We have provided you." And they wronged Us not - but they were [only] wronging themselves.
Aur hum ney tum per badal ka saya kiya aur tum per mann-o-salwa utara ( aur keh diya ) kay humari di hui pakeeza cheezen khao aur unhon ney hum per zulm nahi kiya albatta woh khud apni janon per zulm kertay thay.
اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا ( اور کہا کہ ) جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے ( شوق سے ) کھاؤ ( ٤٤ ) اور یہ ( نافرمانیاں کرکے ) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے
اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا ( ف۹۲ ) اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں ( ف۹۳ ) اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے ۔ ( ف۹٤ ) اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ ۔
ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا72 ، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی73 اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں ، انھیں کھاوٴ ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا ، وہ ہم پر ظلم نہ تھا ، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا ۔
اور ( یاد کرو ) جب ہم نے تم پر ( وادئ تِیہ میں ) بادل کا سایہ کئے رکھا اور ہم نے تم پر مَنّ و سلوٰی اتارا کہ تم ہماری عطا کی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ ، سو انہوں نے ( نافرمانی اور ناشکری کر کے ) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا مگر اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :72 یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسّر نہ تھی ، ہم نے ابر سے تمہارے بچاؤ کا انتظام کیا ۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر ، سر چھُپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے ۔ اس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدّت تک آسمان کو اَبر آلود نہ رکھا جاتا ، تو یہ قوم دھوپ سے ہلاک ہو جاتی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :73 مَنّ و سَلْویٰ وہ قدرتی غذائیں تھیں ، جو اس مہاجرت کے زمانے میں ان لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں ۔ مَنّ دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی ، جو اُوس کی طرح گرتی اور زمین پر جم جاتی تھی ۔ اور سَلْویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے ۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پُوری کی پُوری قوم محض انہی غذاؤں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑی ، حالانکہ آج کسی نہایت متمدّن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آپڑیں ، تو ان کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے ۔ ( مَنّ اور سَلْویٰ کی تفصیلی کیفیّت کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل ، کتاب خرُوج ، باب ۱٦- گنتی ، باب ۱۱ ، آیت ۹-۷ و ۳۲-۳۱ و یشوع ، باب ۵- آیت ۱۲ )
یہود پہ احسانات الہیہ کی تفصیل سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں غمام غمامتہ کی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لئے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں ان کے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی وغیرہ میں ابن عباس سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے ، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابن عمر ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابو حذیفہ کا قول بھی یہی ہے آیت ( ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) 2 ۔ البقرۃ:210 ) اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ کیا ان لوگوں کو اس کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادل میں آئے ۔ یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے ۔ جو من ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا ۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا ۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولوں کی طرح من ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا ۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھر بار کے لئے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا ۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لئے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس من کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی من شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی ۔ لیکن یہاں من سے مراد یہی من مشہور نہیں صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے ۔ ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں ۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے سلویٰ ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے ۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لئے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لئے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا ۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں ۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر من و سلوی اتارا گیا اور پانی کے لئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی فرقے تھے ۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لئے بانٹ لیا ، پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا ، رہ گیا لباس تو قدرت الٰہی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا لباس میں بڑھتا جاتا نہ پھٹتا نہ خراب ہوتا نہ میلا ہوتا ، ان تمام نعمتوں کا ذکر مختلف جگہ قرآن پاک میں موجود ہے جیسے یہ آیت اور آیت ( اذا ستسقی ) والی آیت وغیرہ ۔ بذلی کہتے ہیں کہ سلویٰ شہید کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے ثورج نے اور جوہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے ۔ کسائی کہتے ہیں سلویٰ واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سلویٰ ۔ غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لئے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں ۔ تقابلی جائزہ بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الٰہی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لئے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی ، جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لئے ، پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی ، پیا پلایا اور مشیں اور مشکیزے سب بھر لئے ۔ پس صحابہ کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی ۔