Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ كَمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى نُوۡحٍ وَّالنَّبِيّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ‌ ۚ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِيۡسٰى وَاَيُّوۡبَ وَيُوۡنُسَ وَهٰرُوۡنَ وَسُلَيۡمٰنَ‌ ۚ وَاٰتَيۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا‌ ۚ‏ ﴿163﴾
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح ( علیہ السلام ) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی ، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نےداؤد ( علیہ السلام ) کو زبور عطا فرمائی ۔
انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و النبين من بعده و اوحينا الى ابرهيم و اسمعيل و اسحق و يعقوب و الاسباط و عيسى و ايوب و يونس و هرون و سليمن و اتينا داود زبورا
Indeed, We have revealed to you, [O Muhammad], as We revealed to Noah and the prophets after him. And we revealed to Abraham, Ishmael, Isaac, Jacob, the Descendants, Jesus, Job, Jonah, Aaron, and Solomon, and to David We gave the book [of Psalms].
Yaqeenan hum ney aap ki taraf issi tarah wahee ki hai jaisay kay nooh ( alh-e-salam ) aur inn kay baad walay nabiyon ki taraf ki aur hum ney wahee ki ibrahim aur isamail aur ishaq aur yaqoob aur unn ki aulad per aur essa aur ayub aur younus aur haroon aur suleman ki taraf. Aur hum ney dawood ( alh-e-salam ) ko zaboor ata farmaee.
۔ ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہارے پاس اسی طرح وحی بھیجی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کے پاس بھیجی تھی ، اور ہم نے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور ان کی اولاد کے پاس ، اور عیسیٰ ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیمان کے پاس بھی وحی بھیجی تھی ، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی ۔
بیشک اے محبوب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے دحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی ( ف٤۰۹ ) اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی
اے محمد ! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ۔ 204 ہم نے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اولاد یعقوب ، عیسٰی ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی ۔ ہم نے داؤد کو زبور دی ۔ 205
۔ ( اے حبیب! ) بیشک ہم نے آپ کی طرف ( اُسی طرح ) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کی طرف اور ان کے بعد ( دوسرے ) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور ( ان کی ) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان ( علیھم السلام ) کی طرف ( بھی ) وحی فرمائی ، اور ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) کو ( بھی ) زبور عطا کی تھی
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :204 اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انوکھی چیز لے کر نہیں آئے ہیں جو پہلے نہ آئی ہو ۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک نئی چیز پیش کر رہا ہوں ۔ بلکہ دراصل ان کو بھی اسی ایک منبع علم سے ہدایت ملی ہے جس سے تمام پچھلے انبیاء کو ہدایت ملتی رہی ہے ، اور وہ بھی اسی ایک صداقت و حقیقت کو پیش کر رہے ہیں جسے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیدا ہونے والے پیغمبر ہمیشہ سے پیش کرتے چلے آئے ہیں ۔ وحی کے معنی ہیں اشارہ کرنا ، دل میں کوئی بات ڈالنا ، خفیہ طریقے سے کوئی بات کہنا ، پیغام بھیجنا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :205 موجودہ بائیبل میں زبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبور داؤد نہیں ہے ۔ اس میں بکثرت مزامیر دوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنفین کی طرف منسوب ہیں ۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلام حق کی روشنی محسوس ہوتی ہے ۔ اسی طرح بائیبل میں امثال سلیمان علیہ السلام کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دو باب تو صریحاً الحاقی ہیں ، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے ۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت ایوب علیہ السلام کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود ، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے ۔ ۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایوب علیہ السلام کے جس صبر عظیم کی تعرف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے ، حتٰی کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے ، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے ۔ ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ خصوصاً یسعیاہ ، یرمیاہ ، حزقی ایل ، عاموس اور بعض دوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی روح وجد کرنے لگتی ہے ۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسوس ہوتی ہے ۔ ان کی اخلاقی تعلیم ، ان کا شرک کے خلاف جہاد ، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں ۔
نزول انبیاء ، تعداد انبیاء ، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نہیں‏ مانتے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ، محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں جب آیت ( يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا ١٥٣؁ وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ١٥٤؁ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٥٥؀۠ وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا ١٥٦؀ۙ ) 4 ۔ النسآء:153 سے 156 ) تک اتری اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کر دیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا ، نہ موسیٰ پر ، نہ عیسیٰ پر ، نہ کسی اور نبی پر ، آپ اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے ، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے آیت ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ) 6 ۔ الانعام:91 ) نازل فرمائی ، لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لئے کہ یہ آیت سورہ انعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورہ نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں ، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کر دیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی ۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ، ان انبیاء علیہم السلام کے قصے سورہ قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ہے تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر ہو چکا ہے اور بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں بھی ہوا ۔ جن انبیاء کرام کے نام قرآن کے الفاظ میں آ گئے ہیں وہ یہ ہیں ، آدم ، ادریس ، نوح ، ہود ، صالح ، ابراہیم ، لوط ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، یونس ، داؤد ، سلیمان ، یوشع ، زکریا ، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس ) اور ان سب کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا ، اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے ، اس بارے میں مشہور حدیث حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں؟ فرمایا تین سو تیرہ ، بہت بڑی جماعت ۔ میں نے پھر دریافت کیا ، سب سے پہلے کون سے ہیں؟ فرمایا آدم میں نے کہا کیا وہ بھی رسول تھے؟ فرمایا ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، پھر ان میں اپنی روح پھونکی ، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا پھر فرمایا اے ابو ذر چار سریانی ہیں ، آدم ، شیت ، نوح ، خضوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے ، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا ، چار عربی ہیں ، ہود ، صالح ، شعیب اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اے ابو ذر بنو اسرائیل کے پہلے نبی حضرت موسیٰ ہیں اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں ۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں ۔ اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے ۔ حافظ ابو حاتم نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے ، لیکن ان کے برخلاف امام ابو الفرج بن جوزی رحمتہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے واللہ اعلم ، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے حضرت ابو امامہ سے بھی مروی ہے ، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں ، ایک اور حدیث ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں ، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں زیدی اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں ، واللہ اعلم ، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد حضرت عیسیٰ آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی ، واللہ اعلم ۔ ابو ذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے ، اسے بھی سن لیجئے ، آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف فرما تے ، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں وہ بہتر چیز ہے ، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کون سے اعمال افضل ہیں؟ فرمایا اللہ پر ایمان لانا ، اس کی راہ میں جہاد کرنا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا مسلمان اعلیٰ ہے؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں میں نے پوچھا کونسی ہجرت افضل ہے؟ فرمایا برائیوں کو چھوڑ دینا میں نے پوچھا کونسی نماز افضل ہے؟ فرمایا لمبے قنوت والی میں نے کہا کونسا روزہ افضل ہے؟ فرمایا فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے میں نے پوچھا کونسا جہاد افضل ہے؟ فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے ۔ میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے؟ فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو ۔ میں نے پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے؟ فرمایا کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا ۔ میں نے کہا قران میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے؟ فرمایا آیت الکرسی پھر آپ نے فرمایا اے ابو ذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر ، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کتنے ہیں؟ فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ فرمایا تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں؟ فرمایا آدم میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے؟ فرمایا ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا ۔ پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں ، آدم ، شیث ، خنوخ اور یہی ادریس ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود ، شعیب ، صالح اور تمہارے نبی ، سب سے پہلے رسول حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں؟ فرمایا ایک سو چار ، حضرت شیث علیہ السلام پر پچاس صحیفے ، حضرت خنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان ، میں نے کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا ۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں ۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو! دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے ، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے ، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو ۔ عقل مند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے ، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر ، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت ، عقل مند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے ، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے ، وہ بہت کم گو ہو گا ، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے ، میں نے پوچھا موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے ، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے ، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لئے پاگل ہو رہا ہے ، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے ، دنیا کی بےثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے ، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے ، میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگلے انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ) 87 ۔ الاعلی:14 ) آخر سورت تک ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وصیت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں ، یہی تیرے اعمال کی روح ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور بھی ، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لئے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہو گا ، میں نے پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید فرمایئے ، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے ، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو ، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے ، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو ، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہو گی ۔ میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو ، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہو گی ، میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو ، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا قرابت داروں سے ملتے رہو ، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے ، میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر ، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر ، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو ، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابو ذر تدبیر کے مانند کوئی عقل مندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیز گاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں ، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی سنو وہ بھینگا ہو گا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہو گی ، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے ، وہ تمام زبانیں بولے گا ، اس کے ساتھ سر سبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے گا ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا ۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا ۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے ، ایک شخص حضرت ابو بکر بن عیاش رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:164 ) یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے ، اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہو گا ۔ میں نے اعمش سے اعمش نے یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے ، عبدالرحمٰن سے علی سے ، علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا ہے کہ آیت ( وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:164 ) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو ، اس لئے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے ۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بد دیانتی کیسے کرو گے؟ جہاں فرمایا ہے آیت ( وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ) 7 ۔ الاعراف:143 ) یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ، مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہو جائے تو بہت ٹھیک ہے ۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے ۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے ، ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں ، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی ، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں ۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن حضرت موسیٰ سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو ، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہو گی ، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی ، اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں ۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا ۔ حضرت کلیم اللہ نے پوچھا باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کر سکتا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے ، یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں ۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضامندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامر و نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى ) 20 ۔ طہ:134 ) یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28 ۔ القصص:47 ) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ ڈر پسند ہو ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں ۔