Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
يَسۡـَٔـــلُوۡنَكَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَهُمۡ‌ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ‌ ۙ وَمَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَـوَارِحِ مُكَلِّبِيۡنَ تُعَلِّمُوۡنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ‌ فَكُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَكۡنَ عَلَيۡكُمۡ وَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ‏ ﴿4﴾
آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے ، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالٰی نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالٰی کے نام کا ذکر کر لیا کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ، یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے ۔
يسلونك ما ذا احل لهم قل احل لكم الطيبت و ما علمتم من الجوارح مكلبين تعلمونهن مما علمكم الله فكلوا مما امسكن عليكم و اذكروا اسم الله عليه و اتقوا الله ان الله سريع الحساب
They ask you, [O Muhammad], what has been made lawful for them. Say, "Lawful for you are [all] good foods and [game caught by] what you have trained of hunting animals which you train as Allah has taught you. So eat of what they catch for you, and mention the name of Allah upon it, and fear Allah ." Indeed, Allah is swift in account.
Aap say daryaft kertay hain kay unn kay liye kiya kuch halal hai? Aap keh dijiye kay tamam pak cheezen tumharay liye halal ki gaee hain aur jin shikar khelney walay janwaron ko tum ney sidha rakha hai yani jinhen tum thora boht woh sikhatay ho jiss ki taleem Allah Taalaa ney tumhen dey rakhi hai pus jiss shikar ko woh tumharay liye pakar ker rok rakhen to tum uss say kha lo aur iss per Allah Taalaa kay naam ka zikar ker liya kero. Aur Allah Taalaa say dartay raho yaqeenan Allah Taalaa jald hisab lenay wala hai.
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر ( شکار کے لیے ) سدھا لیا ہو ، وہ جس جانور کو ( شکار کر کے ) تمہارے لیے روک رکھیں ، اس میں سے تم کھا سکتے ہو ، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو ، ( ٨ ) اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ جلد حساب لینے والا ہے
اے محبوب! تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں ( ف۱۹ ) اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے ( ف۲۰ ) انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں ( ف۲۱ ) اور اس پر اللہ کا نام لو ( ف۲۲ ) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی ،
لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے ، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ 18 اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سَدھایا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ، 19 البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو 20 اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو ، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں ، آپ ( ان سے ) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں ( شکار کے وہ طریقے ) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں ، سو تم اس ( شکار ) میں سے ( بھی ) کھاؤ جو وہ ( شکاری جانور ) تمہارے لئے ( مار کر ) روک رکھیں اور ( شکار پر چھوڑتے وقت ) اس ( شکاری جانور ) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :18 اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ مذہبی طرز خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے ۔ اس ذہنیت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلط ہو جاتا ہے ۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنوع تو نہیں ۔ یہاں قرآن اسی ذہنیت کی اصلاح کرتا ہے ۔ پوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں ۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل الٹ گیا ۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے ۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اصول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اس کے جس کی حرمت کی تصریح کر دی جائے ۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دنیا کی وسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حلت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دنیا اس کے لیے حرام تھی ۔ اب حرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دنیا اس کے لیے حلال ہو گئی ۔ حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں ، یا جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایا ہو ، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :19 شکاری جانوروں سے مراد کتے ، چیتے ، باز ، شکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے ۔ سدھائے ہوئے جانور کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑا ہوا جانور حرام ہے اور سدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال ۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے ، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا ۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصہ بھی وہ کھا لے تو بقیہ دوتہائی حلال ہے ، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں ۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا ، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا ۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا ۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے ۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سے یہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :20 یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کتے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں ۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“ ۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کتا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کتا وہاں موجود ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کتے پر لیا تھا نہ کہ دوسرے کتے پر“ ۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے ۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کرلینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا ۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے ۔
شکاری کتے اور شکار چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں ، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت ( وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) 6 ۔ الانعام:119 ) یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آ چکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بےبس اور بےقرار ہو جاؤ ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہدیجئے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ، سورہ اعراف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قبیلہ طلائی کے دو شخصوں حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہو چکا اب حلال کیا ہے؟ اس پر یہ آیت اتری ۔ حضرت سعید فرماتے ہیں یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں ۔ مقاتل فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔ امام زہری سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں ۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں فرمایا و طیبات میں داخل نہیں اور تمہارے لئے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شِکرے وغیرہ کے ذریعے ۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ تابعین ائمہ وغیرہ کا ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شکاری سدھائے ہوئے کتے ، باز ، چیتے ، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جا سکتا ہو اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے کہ پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کر لے ، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے ، لیکن حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت ( ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) پڑھا ہے سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھا لو ورنہ نہ کھاؤ ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو ، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے ، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ چاروں اماموں وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے ، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ تیرے لئے روک رکھے تو اسے کھا لے امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے ، اس لئے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں ، گدھا ، عورت اور سیاہ کتا ۔ اس پر حضرت ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا شیطان ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں کتوں سے کیا واسطہ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو ۔ شکاری حیوانات کو جوارح اس لئے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو ، جیسے عرب کہتے ہیں ( فلان جرح اہلہ خیرا ) یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے ہیں ( فلان لا جارح لہ فلاں ) شخص کا کوئی کماؤ نہیں ، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت ( وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام:60 ) یعنی دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے ۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آکر آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس امت کے قتل کا حکم آپ نے دیا ان سے ہمارے لئے کیا فائدہ حلال ہے؟ آپ خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس آپ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور بسم اللہ بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھا لے ۔ ابن جریر میں ہے جبرائیل نے حضور سے اندر آنے کی اجازت چاہی ، آپ نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ نے فرمایا اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے؟ اس پر فرشتے نے کہا! ہم اس گھر میں نہیں جاتے ، جس میں کتا ہو ، اس پر آپ نے حضرت رافع کو حکم دیا کہ مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں ، ابو رافع فرماتے ہیں ، میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا ، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا ، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا ، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے حکم دیا کہ اسے بھی باقی نہ چھوڑو ، میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کر دیا ، اب لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہے ، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لئے حلال بھی ہے یا نہیں؟ اس پر آیت ( یسألونک ) الخ ، نازل ہوئی ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر ابو رافع آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی حضرت عاصم بن عذی حضرت سعید بن خیثمہ حضرت عمویمر بن ساعدرہ ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے ( مکلبین ) کا لفظ ممکن ہے کہ ( علمتم ) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ جوارح یعنی مقتول کا حاصل ہو ۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں ، اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہوگا جیسے کہ امام شافعی کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے ۔ اسی لئے فرمایا تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں لکھا رکھا ہے یعنی جب تم چھوڑو ، جائے ، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لئے روک رکھے ۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو ، اس نے خود اپنے لئے اسے شکار نہ کیا ہو ، اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو ، اس پر اجماع ہے ۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھا لے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لئے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں چھوڑا میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھا لے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے ، دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لئے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لئے کہ کتے کا اسے شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اگر اس نے کھا لیا ہو تو پھر اسے نہ کھا ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو؟ یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھا لے تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں ۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھا لیا ہو ، حضرت سعید بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاض فرماتے ہیں گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں جب بسم اللہ کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لئے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھا لے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو ، یہی مروی ہے حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے ۔ حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں ، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ، اسی کی طرف امام شافعی اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھا لیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے ۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا حضرت سلمان سے سننا معلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں ، ابو داؤد میں ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے؟ آپ نے فرمایا جو جانور وہ تیرے لئے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے ، اس نے کہا ذبح کر سکوں جب بھی اور ذبح نہ کر سکوں تو بھی؟ اور اگرچہ کتے نے کھا لیا ہو تو بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں گو کھا بھی لیا ہو ، انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے؟ فرمایا اسے بھی تو کھا سکتا ہے ، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کر سکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مر جائے تو بھی؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی ۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو ، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لئے کیسا ہے؟ فرمایا تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو ۔ یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لئے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے ۔ ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لئے کھیلے تو اسے کھا لے ، حضرت عدی نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھا لیا ہو فرمایا ہاں پھر بھی ، ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھا لیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے ۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں ۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھا لیا تو بقیہ حلال ۔ پہلی بات پر محمول ہے حضرت عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں ۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارہ میں یہ وضاحت کرے تو الحمد اللہ یہ وضاحت لوگوں نے کر لی ۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ حضرت عدی کی حدیث میں ہے ، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لئے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر پرند اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھا لے ۔ ابراہیم نخعی ، شعبی ، حماد بن سلیمان یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ حضرت عدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لئے کیا حلال ہے؟ آپ نے فرمایا جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لئے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھا لو ۔ پھر فرمایا جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھا لے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں؟ تو؟ فرمایا پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے ۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کونسا حلال ہے؟ فرمایا جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھا لے ، وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی ، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہو گیا واللہ اعلم ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم کھا لو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو ۔ جیسے کہ حضرت عدی اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے اسی لئے حضرت امام احمد وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھنا شرط ہے ۔ جمہوری کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت بسم اللہ کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابو سلمہ کے ربیبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں؟ تو کیا ہم اسے کھا لیں آپ نے فرمایا تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھا لو ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر دو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آ جائے کہدے دعا ( بسم اللہ اولہ و اخرہ ) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ دوسری سند سے یہ حدیث ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ جابربن صبیح فرماتے ہیں ۔ حضرت مثنی بن عبدالرحمن خزاعی کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت دعا ( بسم اللہ اولہ اخرہ ) کہہ لیا کرتے اور مجھ سے انہوں نے فرمایا کہ خالد بن امیہ بن مخشی صحابی کا فرمان ہے کہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہتا ہے جس نے اللہ کا نام نہ لیا ہو جب کھانے والا اللہ کا نام یاد کرتا ہے تو اسے قے ہو جاتی ہے اور جتنا اس نے کھایا ہے سب نکل جاتا ہے ( مسند احمد وغیرہ ) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں ۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی ، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کھانے پر بسم اللہ نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لئے حلال کر لیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے ( مسند ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ) مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اسے شیطانو نہ تو تمہارے لئے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ اس کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی ۔ مسند ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور بسم اللہ کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی ۔