Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اَلۡيَوۡمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ‌ ؕ وَطَعَامُ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلٌّ لَّهُمۡ‌ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍ‌ؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالۡاِيۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُهٗ وَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ﴿5﴾
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو ، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو ، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں ۔
اليوم احل لكم الطيبت و طعام الذين اوتوا الكتب حل لكم و طعامكم حل لهم و المحصنت من المؤمنت و المحصنت من الذين اوتوا الكتب من قبلكم اذا اتيتموهن اجورهن محصنين غير مسفحين و لا متخذي اخدان و من يكفر بالايمان فقد حبط عمله و هو في الاخرة من الخسرين
This day [all] good foods have been made lawful, and the food of those who were given the Scripture is lawful for you and your food is lawful for them. And [lawful in marriage are] chaste women from among the believers and chaste women from among those who were given the Scripture before you, when you have given them their due compensation, desiring chastity, not unlawful sexual intercourse or taking [secret] lovers. And whoever denies the faith - his work has become worthless, and he, in the Hereafter, will be among the losers.
Kul pakeezah cheezen aaj tumharay liye halal ki gaeen aur ehal-e-kitab ka zabeeha tumharay liye halal hai aur tumhara zabeeha unn kay liye halal hai aur pak daaman musalman aurten aur jo log tum say pehlay kitab diye gaye hain unn ki pak daaman aurten bhi halal hain jabkay tum unn kay mehar ada kero iss tarah kay tum unn say ba-qaeeda nikkah kero yeh nahi kay aelaaniya zinna kero ya posheedah bad kaari kero munkireen-e-eman kay aemaal zaya aur ikaarat hain aur aakhirat mein woh haarney walon mein say hain.
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں ، اور جن لوگوں کو ( تم سے پہلے ) کتاب دی گئی تھی ، ان کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے ( ٩ ) نیز مومنوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ( ١٠ ) جبکہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیے ہوں ، نہ تو ( بغیر نکاح کے ) صرف ہوس نکالنا مقصودہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا ۔ اور جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کا سارا کیا دھراغارت ہوجائے گا اور آخرت میں اس کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوگا ۔
آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں ، اور کتابیوں کا کھانا ( ف۲۳ ) تمہارے لیے حلال ہوا ، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے ، اور پارسا عورتیں مسلمان ( ف۲٤ ) اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے ( ف۲۵ ) نہ مستی نکالتے اور نہ ناآشنا بناتے ( ف۲٦ ) اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے ( ف۲۷ )
آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے ۔ 21 اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، 22 بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو ، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو ۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا ۔ 23 ؏١
آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ، اور ان لوگوں کا ذبیحہ ( بھی ) جنہیں ( اِلہامی ) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے ، اور ( اسی طرح ) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ( تمہارے لئے حلال ہیں ) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو ، ( مگر شرط ) یہ کہ تم ( انہیں ) قیدِ نکاح میں لانے والے ( عفت شعار ) بنو نہ کہ ( محض ہوس رانی کی خاطر ) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے ، اور جو شخص ( اَحکامِ الٰہی پر ) ایمان ( لانے ) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں ( بھی ) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :21 اہل کتاب کے کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ۔ ہمارے لیے ان کا اور ان کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھوت چھات نہیں ہے ۔ ہم ان کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ”تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں“ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر پاکی و طہارت کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطہ نظر سے ضروری ہیں ، یا اگر ان کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں ، یا اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیں ، تو اسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں ۔ اسی طرح اگر ان کے دسترخوان پر شراب یا سور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے ۔ اہل کتاب کے سوا دوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہل کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ انہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو ، رہے غیر اہل کتاب ، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :22 اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ وہ محصنات ( محفوظ عورتیں ) ہوں ۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ یہاں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں ۔ رہے دارالحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، تو ان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں ۔ حنفیہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکروہ ضرور ہے ۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب رضی اللہ عنہ اور حَسَن بصری رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمی اور غیر ذمی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر محصنات کے مفہوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہل کتاب کی آزاد منش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں ۔ یہی رائے حسن رحمہ اللہ ، شَعبِی رحمہ اللہ اور ابراہیم نَخعَی رحمہ اللہ کی ہے ۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے ۔ بخلاف اس کے امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے ، یعنی اس سے مراد اہل کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :23 اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو ۔
ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے؟ حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل ستھری چیزیں حلال ہیں ، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی ۔ حضرت ابن عباس ، ابو امامہ ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، عکرمہ ، عطاء ، حسن ، مکحول ، ابراہیم ، نخعی ، سدی ، مقاتل بن حیان یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے ، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے ، علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے ، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان ہے کہ جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی ، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا ، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں ۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے ، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی ، اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شانے کا گوشت پسند ہے ، چنانچہ آپ نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا ، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے ، آپ نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا ، آپ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور بھی تھے ، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے ، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا ، جس کا نام زینب تھا ، وجہ دلالت یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کر لیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں؟ اور حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی ، حضرت مکحول فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو؟ اس لئے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھا لیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم وشیث وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے ، جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب ، تنوخ بہرا ، جذام لحم ، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ ، اس لئے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی ، ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے ، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کر دیا گیا ہے ، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے ۔ ہاں ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی جو شافعی اور احمد کے ساتھیوں میں سے تھے ، اس کے خلاف ہیں ، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے تو فرمایا کہ ابو ثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ ، ممکن ہے ابو ثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے ، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا ۔ علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابو ثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں ، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوتا ہے ، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہو سکتا ہے ، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو ۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو ، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے ۔ یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھا لیتے ہو ۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے ، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا حضرت عباس کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے تو آپ نے اس کا بدلہ چکا دیا ۔ ہاں ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیز گاروں کے اور کسی کو نہ کھلا اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضلیت کے ہو ، واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ہے یہ بطور تمہید کے ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے ۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد محصنات سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت مجاہد کی طرف منسوب ہے اور حضرت مجاہد کے الفاظ یہ ہیں کہ محصنات سے آزاد مراد ہیں اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار ، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے ، جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے ۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں ، جیسے دوسری آیت میں محصنات کے ساتھ ہی آیت ( غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) 5 ۔ المائدہ:5 ) آیا ہے ۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ محصنات سے مراد پاک دامن ہے ، ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں ، امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:29 ) یعنی ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے اس سے بڑا شرک کیا ہو گا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت ( وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:221 ) یعنی مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں ، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورہ بقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کر دیا ۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں ، اس لئے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت لم یکن الذین کفروا ۔ ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) پھر فرماتا ہے جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو ، حضرت جابر بن عبداللہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا ( ابن جریر ) پھر فرماتا ہے تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں ۔ سورہ نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے ۔ حضرت امام احمد اسی طرف گئے ہیں کہ زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں ، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی ناجائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آجائیں ۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کر سکتا ہے ۔ خلیفتہ المومنین حضرت عمر فاروق نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں ۔ اس پر حضرت ابی بن کعب نے عرض کی کہ اے امیر المومنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے ۔ اس مسئلے کو ہم آیت ( اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) 24 ۔ النور:3 ) کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں ۔