Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
لَـقَدۡ كَفَرَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ مَرۡيَمَ‌ؕ قُلۡ فَمَنۡ يَّمۡلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَيۡـًٔـــا اِنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّهۡلِكَ الۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا‌ ؕ وَلِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا‌ ؕ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿17﴾
یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے ، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالٰی مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالٰی ہی کا ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے
لقد كفر الذين قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم قل فمن يملك من الله شيا ان اراد ان يهلك المسيح ابن مريم و امه و من في الارض جميعا و لله ملك السموت و الارض و ما بينهما يخلق ما يشاء و الله على كل شيء قدير
They have certainly disbelieved who say that Allah is Christ, the son of Mary. Say, "Then who could prevent Allah at all if He had intended to destroy Christ, the son of Mary, or his mother or everyone on the earth?" And to Allah belongs the dominion of the heavens and the earth and whatever is between them. He creates what He wills, and Allah is over all things competent.
Yaqeenan woh log kafir hogaye jinhon ney kaha kay Allah hi maseeh ibn-e-mariyum hai aap inn say keh dijiye kay agar Allah maseeh ibn-e-marium aur uss ki walida aur ruy-e-zamin kay sab logon ko halak ker dena chahaye to kaun hai jo Allah Taalaa per kuch bhi ikhtiyar rakhta ho? Aasmanon-o-zamin aur dono kay darmiyan ka kul mulk Allah Taalaa hi ka hai woh jo chahata hai peda kerta hai aur Allah Taalaa her cheez per qadir hai.
جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں ۔ ( اے نبی ! ان سے ) کہہ دو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں کچھ کرنے کی ذرا بھی طاقت رکھتا ہو؟ تمام آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے ۔ وہ جو چیز چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے ۔
بیشک کافر ہوئے وہ جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے ( ف٦۰ ) تم فرما دو پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ( ف٦۱ ) اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی جو چاہے پیدا کرتا ہے ، اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ،
یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابنِ مریم ہی خدا ہے ۔ 39 اے محمد ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابنِ مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں ، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے 40 اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے ۔
بیشک ان لوگوں نے کفر کیا جو کہتے ہیں کہ یقیناً اﷲ مسیح ابن مریم ہی ( تو ) ہے ، آپ فرما دیں: پھر کون ( ایسا شخص ) ہے جو اﷲ ( کی مشیت میں ) سے کسی شے کا مالک ہو؟ اگر وہ اس بات کا ارادہ فرمالے کہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں اور سب زمین والوں کو ہلاک فرما دے گا ( تو اس کے فیصلے کے خلاف انہیں کون بچا سکتا ہے؟ ) اور آسمانوں اور زمین اور جو ( کائنات ) ان دونوں کے درمیان ہے ( سب ) کی بادشاہی اﷲ ہی کے لئے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ، اور اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :39 عیسائیوں نے ابتداءً مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرار دے کر جو غلطی کی تھی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے مسیح علیہ السلام کی حقیقت ایک معما بن کر رہ گئی جسے ان کے علماء نے لفاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوشش کی اتنے ہی زیادہ الجھتے چلے گئے ۔ ان میں سے جس کے ذہن پر اس مرکب شخصیت کے جزو انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے اور تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہونے پر زور دیا ۔ اور جس کے ذہن پر جزو الوہیت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیح علیہ السلام کی عبادت کی ۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کر دیا جن سے مسیح علیہ السلام کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جا سکے ، خدا اور مسیح علیہ السلام الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ نساء ، حاشیہ نمبر ۲۱۲ ، ۲۱۳ و ۲۱۵ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :40 اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ محض مسیح علیہ السلام کی اعجازی پیدائش اور ان کے اخلاقی کمالات اور محسوس معجزات کو دیکھ کر جو لوگ اس دھوکہ میں پڑ گئے کہ مسیح علیہ السلام ہی خدا ہے وہ درحقیقت نہایت نادان ہیں ۔ مسیح علیہ السلام تو اللہ کے بے شمار عجائب تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کر ان ضعیف البصر لوگوں کی نگاہیں چوندھیا گئیں ۔ اگر ان لوگوں کی نگاہ کچھ وسیع ہوتی تو انہیں نظر آتا کہ اللہ نے اپنی تخلیق کے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نمونے پیش کیے ہیں اور اس کی قدرت کسی حد کے اندر محدود نہیں ہے ۔ پس یہ بڑی بے دانشی ہے کہ مخلوق کے کمالات کو دیکھ کر اسی پر خالق ہونے کا گمان کر لیا جائے ۔ دانشمند وہ ہیں جو مخلوق کے کمالات میں خالق کی عظیم الشان قدرت کے نشانات دیکھتے ہیں اور ان سے ایمان کا نور حاصل کرتے ہیں ۔
اللہ وحدہ شریک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے کفر کو بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے ، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں ، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے ۔ کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے ، کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے ۔ وہ اگر مسیح کو ، ان کی والدہ کو اور روئے زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے ۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے ۔ جو چاہے کر گزرے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا ، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے ، اس کی عظمت ، عزت بہت بلند ہے ، وہ عادل و غالب ہے ۔ جسے جس طرح چاہتا ہے بناتا بگاڑتا ہے ، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں ۔ نصرانیوں کی تردید کے بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور وہ اللہ کے لاڈلے فرزند ہیں ، اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو کہا ہے ( انت ابنی بکری ) پھر تاویلیں کر کے مطلب الٹ پلٹ کر کے کہتے کہ جب وہ اللہ کے بیٹے ہوئے تو ہم بھی اللہ کے بیٹے اور عزیز ہوئے حالانکہ خود ان ہی میں سے جو عقلمند اور صاحب دین تھے وہ انہیں سمجھاتے تھے کہ ان لفظوں سے صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے ، قرابت داری نہیں ۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ( انی ذاھب الی ابی وابیکم ) اس سے مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے اپنے محاورے میں اللہ کیلئے یہ لفظ بھی آتا تھا پس مطلب اس کا یہ ہے کہ میں اپنے اور تمہارے رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتا رہا ہے کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ کی طرف سے ، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے لیکن وہ لوگ اپنے باطل عقیدے میں حضرت عیسیٰ کو اللہ سے جو نسبت دیتے ہیں ، اس نسبت کا اپنے اپنے اوپر اطلاق نہیں مانتے ۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے تھا نہ کہ کچھ اور ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تمہارے کفر و کذب ، بہتان و افتراء پر اللہ تمہیں سزا کیوں کرتا ہے؟ کسی صوفی نے کسی فقیہ سے دریافت فرمایا کہ کیا قرآن میں یہ بھی کہیں ہے کہ حبیب اپنے حبیب کو عذاب نہیں کرتا ؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے یہی آیت تلاوت فرما دی ، یہ قول نہایت عمدہ ہے اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ راہ سے گزر رہے تھے ۔ ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا ، اس کی ماں نے جب دیکھا کہ اسی جماعت کی جماعت اسی راہ آ رہی ہے تو اسے ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ عورت تو اپنے پیارے بچے کو کبھی بھی آگ میں نہیں ڈال سکتی آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندوں کو ہرگز جہنم میں لے جائیگا ۔ یہودیوں کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے ایک انسان ہو تمہیں دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں پر حاکم ہے اور وہی ان میں سچے فیصلے کرنے والا ہے ، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے پکڑے ، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے ، اس کا کوئی حاکم نہیں ، اسے کوئی رد نہیں کر سکتا ، وہ بہت جلد بندوں سے حساب لینے والا ہے ۔ زمین و آسان اور ان کے درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے اس کے زیر اثر ہے ، اس کی بادشاہت تلے ہے ، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے ، وہی بندوں کے فیصلے کریگا ، وہ ظالم نہیں عادل ہے ، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے گا ، نعمان بن آصا ، بحربن عمرو ، شاس بن عدی جو یہودیوں کے بڑے بھاری علماء تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے انہیں سمجھایا بجھایا ، آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے سنئے ، حضرت آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ، ہم تو اللہ کے بچے اور اس کے پیارے ہیں ، یہی نصرانی بھی کہتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ان لوگوں نے ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرائیل کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلو نٹھا بیٹا میری اولاد میں سے ہے ۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے گی ، اس مدت میں آگ انہیں پاک کر دے گی اور ان کی خطاؤں کو کھا جائے گی ، پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے جو بھی ختنہ شدہ ہوں ، وہ نکل آئیں ، یہی معنی ہیں ان کے اس قول کے جو قرآن میں مروی ہے وہ کہتے ہیں ہمیں گنتی کے چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے گا ۔