Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذۡ قُلۡتُمۡ يٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّـآٮِٕهَا وَفُوۡمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا‌ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِىۡ هُوَ اَدۡنٰى بِالَّذِىۡ هُوَ خَيۡرٌ‌ؕ اِهۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَـکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ‌ؕ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقۡتُلُوۡنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ‌ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّڪَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ‏ ﴿61﴾
اور جب تم نے کہا اے موسٰی! ہم سے ایک ہی قِسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا ، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ ، ککڑی ، گہیوں مسور اور پیاز دے آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے ۔
و اذ قلتم يموسى لن نصبر على طعام واحد فادع لنا ربك يخرج لنا مما تنبت الارض من بقلها و قثاىها و فومها و عدسها و بصلها قال اتستبدلون الذي هو ادنى بالذي هو خير اهبطوا مصرا فان لكم ما سالتم و ضربت عليهم الذلة و المسكنة و باءو بغضب من الله ذلك بانهم كانوا يكفرون بايت الله و يقتلون النبين بغير الحق ذلك بما عصوا و كانوا يعتدون
And [recall] when you said, "O Moses, we can never endure one [kind of] food. So call upon your Lord to bring forth for us from the earth its green herbs and its cucumbers and its garlic and its lentils and its onions." [Moses] said, "Would you exchange what is better for what is less? Go into [any] settlement and indeed, you will have what you have asked." And they were covered with humiliation and poverty and returned with anger from Allah [upon them]. That was because they [repeatedly] disbelieved in the signs of Allah and killed the prophets without right. That was because they disobeyed and were [habitually] transgressing.
Aur jab tum ney kah aey musa! hum say aik hi qisam kay khaney per sabar na hosakay ga iss liye apeny rab say dua kijiye kay woh humen zamin ki peda waar saag kakri gehon masoor aur piyaz dey aap ney farmaya behtar cheez kay badlay adna cheez kiyon talab kertay ho! acha shehar mein jao wahan tumhari chahat ki yeh sab cheezen milen gi. Unn per zillat aur miskeeni daal di gaee aur Allah ka ghazab ley ker woh lotay yeh iss liey kay woh Allah ki aayaton kay sath kufur kertay thay aur nabiyon ko na haq qatal kertay thay yeh unn ki na farmaniyon aur ziyadtiyon ka nateeja hai.
اور ( وہ وقت بھی ) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کرسکتے لہذا اپنے پروردگار سے مانگیے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے یعنی زمین کی ترکاریاں ، اس کی ککڑیاں ، اس کا گندم ، اس کی دالیں اور اس کی پیاز ۔ موسیٰ نے کہا ’’ جو ( غذا ) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟ ( خیر ! ) ایک شہر میں جا اترو ۔ تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں ( ٤٧ ) اور ان ( یہودیوں پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگادیا گیا ، اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کردیتے تھے ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے ۔
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ( ف۱۰۲ ) ہم سے تو ایک کھانے پر ( ف۱۰۳ ) ہرگز صبر نہ ہوگا تو آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہمارے لئے نکالے کچھ ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز فرمایا کیا ادنیٰ چیز کو بہتر کے بدلے مانگتے ہو ( ف۱۰٤ ) اچھا مصر ( ف۱۰۵ ) یا کسی شہر میں اترو وہاں تمہیں ملے گا جو تم نے مانگا ( ف۱۰٦ ) اور ان پر مقرر کردی گئی خواری اور ناداری ( ف۱۰۷ ) اور خدا کے غضب میں لوٹے ( ف۱۰۸ ) یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے ( ف۱۰۹ ) یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا ۔
یاد کرو ، جب تم نے کہا تھا کہ’’ اے موسیٰ علیہ السلام ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے ۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ ، ترکاری ، گیہوں ، لہسن ، پیاز ، دال وغیرہ پیدا کریں ‘‘ ۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا’’ کیا ایک بہتر چیز کے بجائےتم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا 77 ، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا‘‘ ۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے ۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات 78 سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے ۔ یہ 79 نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے ۔ ؏۷
اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم فقط ایک کھانے ( یعنی منّ و سلویٰ ) پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے تو آپ اپنے رب سے ( ہمارے حق میں ) دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز پیدا کر دے ، ( موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ) فرمایا: کیا تم اس چیز کو جو ادنیٰ ہے بہتر چیز کے بدلے مانگتے ہو؟ ( اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو ) کسی بھی شہر میں جا اترو یقیناً ( وہاں ) تمہارے لئے وہ کچھ ( میسر ) ہو گا جو تم مانگتے ہو ، اور ان پر ذلّت اور محتاجی مسلط کر دی گئی ، اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹ گئے ، یہ اس وجہ سے ( ہوا ) کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے ، اور یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ وہ نافرمانی کیا کرتے اور ( ہمیشہ ) حد سے بڑھ جاتے تھے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :76 وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے ۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں ۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے ۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :77 یہ مطلب نہیں ہے کہ مَنّ و سلویٰ چھوڑ کر ، جو بے مشقّت مِل رہا ہے ، وہ چیزیں مانگ رہے ہو ، جن کےلیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جارہی ہے ، اس کے مقابلےمیں کیا تم کو کام و دہن کی لذّت اتنی مرغوب ہے کہ اس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرُومی کچھ مدّت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے؟ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۱۱ ، آیت ۹-٤ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :78 آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی ، اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے ، پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکمِ الہٰی کی کچھ پروا نہ کی ۔ تیسرے یہ کہ ارشاد الہٰی کے مطلب و مفہُوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈالا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :79 “بنی اسرائیل نے اپنے اس جُرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں: ( ۱ ) حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں ( یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل ) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی ۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی ۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا ( ۲- تواریخ ، باب ۱۷- آیت ۱۰-۷ ) ( ۲ ) حضرت الیاس ( ایلیاہ Elliah ) علیہ السّلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا ، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی ۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔ “ ( ۱- سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱ ) ( ۳ ) ایک اور نبی حضرت میکا یاہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جُرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا ۔ ( ۱- سلاطین- باب ۲۲-آیت۲۷-۲٦ ) ( ٤ ) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بُت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی ، تو شاہ یہُوداہ یوآس کے حکم سے انہیں عین ہیکلِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا ( ۲- تواریخ ، باب ۲٤-آیت ۲۱ ) ( ۵ ) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا ، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اُٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا ۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے ، قید کیے گئے ، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ۔ ( یرمیاہ ، باب۱۵ ، آیت ۱۰- باب ۱۸ ، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰ ، آیت ۱۸-۱- باب ۳٦ تا باب ٤۰ ) ( ٦ ) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جا کر نبوت کرو ( عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰ ) ( ۷ ) حضرت یحیٰی ( یُوحنا ) علیہ السّلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں ، تو پہلے وہ قید کیے گئے ، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا ۔ ( مرقس ، باب ٦ ، آیت ۲۹-۱۷ ) ( ۸ ) آخر میں حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردارانِ قوم کا غصّہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے ۔ اس قصُور پر ان کے خلاف جھُوٹا مقدمہ تیار کیا گیا ، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رُومی حاکم پیلاطس نے یہُود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسُوع اور برابّا ڈاکو ، دونوں میں سے کس کو رہا کروں ، تو ان کے پُورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسُوع کو پھانسی پر لٹکا ۔ ( متٰی ، باب ۲۷- آیت ۲٦-۲۰ ) یہ ہے اس قوم کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فُسّاق و فُجّار کو سرداری و سربراہ کاری کے لیے اور اپنے صُلَحا و اَبْرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو ، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اَور کیا کرتا ۔
احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بےصبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلوی جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے ۔ قوم کے معنی میں اختلاف ہے ابن مسعود کی قرأت میں ثوم ہے ، مجاہد نے فوم کی تفسیر ثوم کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی لہسن ، حضرت ابن عباس سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اگلی لغت کی کتابوں میں فوموالنا کے معنی اختبروا یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے عاثور شرعا فور شراثافی اثاثی مفافیر مغاثیر وغیرہ جن میں ف سے ت اور ث بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں واللہ اعلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں حضرت ابن عباس سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیجہ کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا ۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں حضرت قتادہ اور حضرت عطا فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت مصرا ہی ہے اور تمام قرأت وں میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ ۔ ابی بن کعب اور ابن مسعود سے مصر کی قراءت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا قواریرا قواریرا میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لئے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا واللہ اعلم ۔ پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی ۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا آباؤ کے معنی لوٹنے اور رجوع کیا کے ہیں باء کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار ، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیا اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں کو بلاوجہ قتل کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لئے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نبی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا ( ابو داؤد طیالسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا ۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے واللہ اعلم ۔