Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
‌قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيۡهِمۡ‌ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً‌‌  ۚ يَتِيۡهُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ‌ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَى الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ ﴿26﴾
ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے ، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے اس لئے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا ۔
قال فانها محرمة عليهم اربعين سنة يتيهون في الارض فلا تاس على القوم الفسقين
[ Allah ] said, "Then indeed, it is forbidden to them for forty years [in which] they will wander throughout the land. So do not grieve over the defiantly disobedient people."
Irshad hua kay abb zamin inn per chalees saal tak haram ker di gaee hai yeh khana badosh idhar udhar sir gardan phirtay rahen gay iss liye tum inn fasiqon kay baray mein ghumgeen na hona.
اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے ، یہ ( اس دوران ) زمین میں بھٹکتے پھریں گے ( ٢١ ) تو ( اے موسی ) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا ۔
فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے ( ف۷۷ ) چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں ( ف۷۸ ) تو تم ان بےحکموں کا افسوس نہ کھاؤ ،
اللہ نے جواب دیا “ اچھا تو وہ ملک چالیس ﴿٤۰﴾ سال تک ان پر حرام ہے ، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ، 46 ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ ” ۔ 47 ؏٤
۔ ( ربّ نے ) فرمایا: پس یہ ( سرزمین ) ان ( نافرمان ) لوگوں پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے ، یہ لوگ زمین میں ( پریشان حال ) سرگرداں پھرتے رہیں گے ، سو ( اے موسٰی! اب ) اس نافرمان قوم ( کے عبرت ناک حال ) پر افسوس نہ کرنا
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :46 اس قصے کی تفصیلات بائیبل کی کتاب گنتی ، استثناء اور یشوع میں ملیں گی ۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دشت فاران سے بنی اسرائیل کے 12 سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں ۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کرکے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ، لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زو آور ہیں ۔ ۔ ۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں ، اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے ، یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے! یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے! خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جاکر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھیریں گے ۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنالیں اور مصر کو لوٹ چلیں ۔ اس پر ان بارہ سرداروں میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے ، دوسردار ، یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی ۔ کالب نے کہا چلو ہم ایک دم جاکر اس ملک پر قبضہ کرلیں ، کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو ۔ ۔ ۔ اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو مگر قوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ انہیں سنگسار کردو آخر کار اللہ تعالی کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یوشع اور کالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سرزمین میں داخل نہ ہونے پائے گا ۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی یہاں تک کہ جب ان میں سے 20 برس سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سب مرد مرجائیں گے اور نئی نسل جوان ہوکر اٹھے تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس فیصلہ خداوندی کے مطابق بنی اسرائیل کو دشت فاران سے شرقی اردن تک پہنچتے پہنچتے پورے 38 برس لگ گئے ۔ اس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر چلے تھے ۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد خلاف میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :47 یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے کی غرض سلسلہ بیان پر غور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتی ہے ۔ قصہ کے پیرایہ میں دراصل بنی اسرائیل کو یہ جتانا مقصود ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں نافرمانی ، انحراف اور پست ہمتی سے کام لے کر جو سزا تم نے پائی تھی ، اب اس سے بہت زیادہ سزا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں باغیانہ روش اختیار کر کے پاؤ گے ۔