Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيۡنَ يُحَارِبُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَسۡعَوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ يُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ يُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَاَرۡجُلُهُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ يُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ‌ؕ ذٰ لِكَ لَهُمۡ خِزۡىٌ فِى الدُّنۡيَا‌ وَ لَهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ ۙ‏ ﴿33﴾
جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔
انما جزؤا الذين يحاربون الله و رسوله و يسعون في الارض فسادا ان يقتلوا او يصلبوا او تقطع ايديهم و ارجلهم من خلاف او ينفوا من الارض ذلك لهم خزي في الدنيا و لهم في الاخرة عذاب عظيم
Indeed, the penalty for those who wage war against Allah and His Messenger and strive upon earth [to cause] corruption is none but that they be killed or crucified or that their hands and feet be cut off from opposite sides or that they be exiled from the land. That is for them a disgrace in this world; and for them in the Hereafter is a great punishment,
Jo Allah Taalaa say aur uss kay rasool say laren aur zamin mein fasaad kertay phiren unn ki saza yehi hai kay woh qatal ker diye jayen ya sooli charha diya jayen ya unhen jila watan ker diya jaye yeh to hui inn ki dunyawi zillat aur khuwari aur aakhirat mein inn kay liye bara bhari azab hai.
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں ، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے ، یا سولی پر چڑھا دیا جائے ، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں ، ( ٢٦ ) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے ( ٢٧ ) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے ، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے ۔
وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ( ف۹٤ ) اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردیے جائیں ، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے ، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا غداب ،
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں 55 ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں ، یا سولی پر چڑھائے جائیں ، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں ، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں ۔ 56 یہ ذلّت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے ۔
بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ( یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا ( وطن کی ) زمین ( میں چلنے پھرنے ) سے دور ( یعنی ملک بدر یاقید ) کر دیئے جائیں ۔ یہ ( تو ) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں ( بھی ) بڑا عذاب ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :55 زمین سے مراد یہاں وہ ملک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو ۔ اور خدا و رسول سے لڑنے کا مطلب اس نظام صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے اور اسی کے لیے اس نے اپنا رسول بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظام قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اس چیز کو جو زمین پر ہے ، امن بخشے ، جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے ، جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں ۔ ایسا نظام جب کسی سر زمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا ، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کردینے کے لیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے” بادشاہ کے خلاف لڑائی“ ( Waging war against the King ) کا مجرم قرار دیا گیا ، چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :56 یہ مختلف سزائیں بر سبیل اجمال بیان کر دی گئی ہیں تاکہ قاضی یا امام وقت اپنے اجتہاد سے ہر مجرم کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے ۔ اصل مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظام کو الٹنے کی کوشش کرنا بدترین جرم ہے اور اسے ان انتہائی سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جا سکتی ہے ۔