Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابۡتَغُوۡۤا اِلَيۡهِ الۡوَسِيۡلَةَ وَجَاهِدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِهٖ لَعَلَّـكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿35﴾
مسلمانو! اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو ۔
يايها الذين امنوا اتقوا الله و ابتغوا اليه الوسيلة و جاهدوا في سبيله لعلكم تفلحون
O you who have believed, fear Allah and seek the means [of nearness] to Him and strive in His cause that you may succeed.
Musalmano! Allah Taalaa say dartay raho aur uss ka qurb talash kero aur uss ki raah mein jihad kero takay tumhara bhala ho.
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ( ٢٩ ) اور اس کے راستے میں جہاد کرو ( ٣٠ ) امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی ۔
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ( ف٦٦ ) اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو 58 اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو ، 59 شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے ۔
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس ( کے حضور ) تک ( تقرب اور رسائی کا ) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :58 یعنی ہر اس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہوں جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کر سکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :59 اصل میں لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم محض ”جدوجہد“ سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا ۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں ، جو تم کو خدا کی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبور کرتی ہیں ، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدوجہد کرو ۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے ۔ اس طرح یہ آیت بندہ مومن کو ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے ۔ ایک طرف ابلیس لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے ۔ دوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں ۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے ۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگی حق کے بجائے بندگی باطل پر انسان کو مجبور کرتے ہیں ۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں ۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقرب خداوندی کے مقام تک اس کے عروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے ۔ لہٰذا اپنے مقصود تک اس کا پہنچنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو ، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے ۔
تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد ، حضرت وائل ، حضرت حسن ، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے ۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ ۔ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:57 ) جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامتہ ) الخ ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ مسلم کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو ، وہی تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا ، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ مسند احمد میں ہے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لئے وسیلہ مانگو ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں ۔ طبرانی میں ہے تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لئے یہ دعا کرے گا ، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا ۔ اور حدیث میں ہے وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو ۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ کے ساتھ اور کون ہوں گے؟ تو آپ نے حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا ۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ حضرت علی نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد ، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالا خانے ہیں ، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں ۔ اسی کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کیلئے ہے ۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ اس کی راہ میں جہاد کرو ، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں ، انہیں قتل کرو ۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں ، جنت کے بلند بالا خانے اور اللہ کی بیشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے ۔ اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہک اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آ جائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کر دینے پر راضی ہے؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا ۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ( مسلم ) ایک مرتبہ حضرت جابر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی ۔ اس پر ان کے شاگرد حضرت یزید فقیر نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے؟ کہ آت ( يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:37 ) یعنی وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں تو آپ نے فرمایا اس سے پہلے کی آیت ( ان الذین کفروا ) الخ ، پڑھو جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے ( مسند وغیرہ ) دوسری روایت میں ہے کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لئے یہ سن کر انہوں نے حضرت جابر سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آ گیا تھا اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور سمجھے سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں ۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے؟ آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) 17 ۔ الاسراء:79 ) اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا ۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہو گیا ۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے سن کر فرمایا! اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے ۔ حضرت جابر نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کر دیئے جائیں گے قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں ۔