Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡـكِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ حَتّٰى تُقِيۡمُوا التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ وَلَيَزِيۡدَنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ طُغۡيَانًا وَّكُفۡرًا‌ۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿68﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے قائم نہ کرو ، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ہی تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں ۔
قل ياهل الكتب لستم على شيء حتى تقيموا التورىة و الانجيل و ما انزل اليكم من ربكم و ليزيدن كثيرا منهم ما انزل اليك من ربك طغيانا و كفرا فلا تاس على القوم الكفرين
Say, "O People of the Scripture, you are [standing] on nothing until you uphold [the law of] the Torah, the Gospel, and what has been revealed to you from your Lord." And that which has been revealed to you from your Lord will surely increase many of them in transgression and disbelief. So do not grieve over the disbelieving people.
Aap keh dijiye kay ehal-e-kitab! Tum dar asal kissi cheez per nahi jab tak kay toraat aur injeel ko aur jo kuch tumhari taraf tumharay rab ki taraf say utara gaya hai qaeem na kerojo kuch aap ki janib aap kay rab ki taraf say utra hai woh inn mein say bohton ko shararat aur inkaar mein aur bhi barhaye ga hi to aap inn kafiron per ghumgeen na hon.
کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل پر اور جو ( کتاب ) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ( اب ) بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں کرو گے ، تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہوسکو ۔ اور ( اے رسول ) جو وحی اپنے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی ، لہذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا ۔
تم فرمادو ، اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو ( ف۱۷۵ ) جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا ( ف۱۷٦ ) اور بیشک اے محبوب! وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس میں بہتوں کو شرارت اور کفر کی اور ترقی ہوگی ( ف۱۷۷ ) تو تم کافروں کا کچھ غم نہ کھاؤ ،
صاف کہہ دو کہ “ اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں” ۔ 97 ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا ۔ 98 مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو ۔ ﴿یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے﴾
فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تم ( دین میں سے ) کسی شے پر بھی نہیں ہو ، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ( نافذ اور ) قائم کر دو ، اور ( اے حبیب! ) جو ( کتاب ) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو ( حسداً ) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی ، سو آپ گروہِ کفار ( کی حالت ) پر افسوس نہ کیا کریں
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :97 توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کرنا اور انہیں اپنا دستور زندگی بنانا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنفین نے بطور خود لکھی ہیں ۔ اور دوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا ۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے ۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے ، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دوسری قسم کی عبارات بھی پوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں ، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے ، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریق زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہودی اور عیسائی اسی تعلیم پر قائم رہتے جو ان کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی ۔ اس صورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے میں تبدیل مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اسی راستہ کے تسلسل میں ، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے ، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :98 یعنی یہ بات سن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آکر اور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے ۔
آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں ۔ پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ۔ صابی ، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بےدین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا ، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے ۔ وہب فرماتے ہیں اللہ کو پہچانتے تھے ، اپنی شریعت کے حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، یہ عراق کے متصل آباد تھے ، یلوثا کہے جاتے تھے ، نبیوں کو مانتے تھے ، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا ، اس لئے رفع کے ساتھ عطف ڈالا ۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ امن و امان والے بےڈر اور بےخوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ پس آپ پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بےخوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کر دیئے گئے ہیں ۔