Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـــَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡيَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَـكُمۡ تَسُؤۡكُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَسۡــَٔـلُوۡا عَنۡهَا حِيۡنَ يُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَـكُمۡ ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهَا‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿101﴾
اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے ۔
يايها الذين امنوا لا تسلوا عن اشياء ان تبد لكم تسؤكم و ان تسلوا عنها حين ينزل القران تبد لكم عفا الله عنها و الله غفور حليم
O you who have believed, do not ask about things which, if they are shown to you, will distress you. But if you ask about them while the Qur'an is being revealed, they will be shown to you. Allah has pardoned that which is past; and Allah is Forgiving and Forbearing.
Aey eman walo!aisi baaten mat poocho kay kay agar tum per zahir ker di jayen to tumhen na gawar ho aur agar tum zamaanaay-e-nuzool-e-quran mein inn baaton ko poocho gay to tum per zahir ker di jayen gi sawalaat-e-guzishta Allah ney moaf ker diye aur Allah bari maghfirat wala bara hilm wala hai.
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی ۔ ( ٦٩ ) ( البتہ ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں ۔ اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا بردبار ہے ۔
اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں ( ف۲٤۳ ) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی ، اللہ انہیں معاف کرچکا ہے ( ف۲٤٤ ) اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، 116 لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی ۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا ، وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے ۔
اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو ( جن پر قرآن خاموش ہو ) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں ( اور تمہیں بری لگیں ) ، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر ( نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر ( یعنی متعیّن ) کر دی جائیں گی ( جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے ) ۔ اللہ نے ان ( باتوں اور سوالوں ) سے ( اب تک ) درگزر فرمایا ہے ، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :116 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں ۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے ۔ مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ۔ ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا ۔ انہوں نے پھر پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہوگئے ۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے ۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نافرمانی کرنے لگو گے“ ۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ ۔ ” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“ ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ان اللہ فرض فرائض فلا تضیعوھا و حرم حرمات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا ۔ ” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو ۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو ۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو ، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“ ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی ، یا جو احکام برسبیل اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدم تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہو گئی ، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں ، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے ۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، استنباط سے کسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصل ، مطلق کو مقَیَّد ، غیر معین کو معین بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی امور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی ، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ الجھن کے مواقع بڑھیں گے ، اور احکام میں جتنی قیود زیادہ ہوں گی پیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے ۔