Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اِذۡ قَالَ الۡحَـوَارِيُّوۡنَ يٰعِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ هَلۡ يَسۡتَطِيۡعُ رَبُّكَ اَنۡ يُّنَزِّلَ عَلَيۡنَا مَآٮِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ‌ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿112﴾
وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔
اذ قال الحواريون يعيسى ابن مريم هل يستطيع ربك ان ينزل علينا ماىدة من السماء قال اتقوا الله ان كنتم مؤمنين
[And remember] when the disciples said, "O Jesus, Son of Mary, can your Lord send down to us a table [spread with food] from the heaven? [Jesus] said," Fear Allah , if you should be believers."
Woh waqt yaad kay qabil hai jab kay hawariyon ney arz kiya kay essa bin marium! Kiya aap ka rab aisa ker sakta hai kay hum per aasman say aik khuwaan nazil farma dey? Aap ney farmaya Allah say daro agar tum eman laye ho.
۔ ( اور ان کے اس واقعے کا بھی ذکر سنو ) جب حواریوں نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا آپ کا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ( کھانے کا ) ایک خوان اتارے؟ عیسیٰ نے کہا : اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔ ( ٧٧ )
جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اتارے ( ف۲۷٦ ) کہا اللہ سے ڈرو ! اگر ایمان رکھتے ہو ( ف۲۷۷ )
﴿ 128 حواریوں کے سلسلہ میں﴾ یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی ابنِ مریم ! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسٰی نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔
اور ( یہ بھی یاد کرو ) جب حواریوں نے کہا: اے عیسٰی ابن مریم! کیا تمہارا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ( کھانے کا ) خوان اتار دے ، ( تو ) عیسٰی ( علیہ السلام ) نے ( جواباً ) کہا: ( لوگو! ) اللہ سے ڈرو اگر تم صاحبِ ایمان ہو
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :128 چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہ کلام کو توڑ کر جملہ معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریک خدا یا فرزند خدا ہونے کا تصور نہ تھا ۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندہ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا ۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس جملہ معترضہ کا کونسا موقع ہو گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ معترضہ اس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے ۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اس سے سبق ملے اور وہ راہ راست پر آئیں ۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملہ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے ۔
نبی اسرائیل کی ناشکری اور عذاب الٰہی یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورہ مائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح علیہ السلام کی نبوت کی ایک زبر دست دلیل اور آپ کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ کی سچائی ظاہر کی ۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے ، واللہ اعلم ، حضرت عیسیٰ کے ماننے والے آپ سے تمنا کرتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرأت میں آیت ( هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) 5 ۔ المائدہ:112 ) یعنی کیا آپ سے یہ ہو سکتا ہے؟ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ مائدہ کہتے ہیں اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو ، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا ، جناب مسیح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو ، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہو جائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں ۔ انہں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں محتاج ہو گئے ہیں اس سے ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے ، اسی طرح آپ پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا ، آپ کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے ، اللہ کی قدرت اور آپ کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہو گی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ کی نبوت کی کافی دلیل ہو گی ، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گزار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وافی ہونا ہے ، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں یا اللہ یہ تیری قدرت کی ایک نشانی ہو گی اور میری سچائی کی بھی کہ تو نے میری دعا قبول فرما لی ، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں انہیں پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے ، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما تو تو بہترین رازق ہے ، اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو ، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمیں سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو ، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمیں سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ ، اور جیسے منافقوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا ، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو ، اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لئے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا انہوں نے تیس روزے پورے کر کے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے حضرت عیسیٰ نے پہلے تو انہیں سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا ، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں ، جہاں یہ تھے وہیں وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اٹھے ، ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لئے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی ، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا ، جس کی سزا میں وہ بندر بن گئے حضرت عمار فرماتے ہیں اس میں جنت کے میوے تھے ، آپ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کر دیں ، پھر سخت عذاب کئے گئے ، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑ تے تھے ، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے ، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں بتا دیا کہ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا لیکن واللہ دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے ، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے ، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پرے ، اسحق بن عبداللہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ رہے ، مجاہدہ سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا ، وہب بن منبہ فرماتے ہیں ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اتر تے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے ، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹیاں جو کی تھیں ، سعید بن جیبر فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں اس پر چاول کی روٹی تھی ، حضرت وہب فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر حضرت عیسیٰ بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہو گا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے ۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی سے نشان طلب کیا تھا لیکن حواریوں نے حضرت عیسیٰ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں آپ ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ اٹھے ، صوف کا جبہ اتار دیا ، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی ، وضو کر کے غسل کر کے ، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہو گئے ، دونوں پیر ملائے ، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی ، انگلیاں بھی ملا لیں ، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، نگاہیں زمین میں گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی ، آنسو رخساروں سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہو گئی ، اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا ، جسے اتر تے ہوئے سب نے دیکھا ، سب تو خوشیاں ما رہے تھے لیکن روح اللہ کانپ رہے تھے ، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کر ے ، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا ، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں ، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا فرما ، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہمارے لئے سبب غضب نہ بنا ، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر ، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر ، یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور حضرت عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا ، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی ، حضرت عیسیٰ اور آپ کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے ، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اس دسترخوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے ، مسیح علیہ السلام نے فرمایا کون نیک بخت جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے؟ حواریوں نے کہا اے کلمتہ اللہ آپ سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے ، نئے سرے سے وضو کیا ، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بنا دیا جائے ، پھر واپس آئے اور بسم اللہ خیر الرازقین کہہ کر رومال اٹھایا ، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے ، جس کے اوپر چھلکا نہیں اور جس میں کانٹے نہیں ، گھی اس میں سے بہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں ، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے ، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں ، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں اور ایک پر پانچ انار ہیں ، شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا ؟ آپ نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں ہوئے؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس پر تمہیں کوئی عذاب نہ ہو ، حضرت شمعون نے کہا اسرائیل کے معبود برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں پوچھ رہا ، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے! یقین ما نئے کہ میری نیت بد نہیں ، آپ نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے ، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے والا قادر اور قدر دان ہے ، شمعون نے کہا اے نبی اللہ ہم چاہتے ہیں کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں ؟ اچھا لو دیکھو یہ کہہ کر آپ نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی ، زندہ ہو جا ، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی ، آنکھیں چمکنے لگیں ، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے ، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے ، آپ نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لئے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے ، اسے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی ، ویسی ہی ہو جا ، چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی ، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھا لیں گے ، آپ نے فرمایا معاذ اللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے ، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑ جائیں ، حضرت عیسیٰ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم یا کہ تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تماہرے نبی کی دعا سے اتری ہے ، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ تہیں مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہو گی تم بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور الحمد اللہ پر ختم کرو ، پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہو گئے وہ تمام بیمار تندرست ہو گئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے ، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے ، آپ فرماتے ہیں اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو بنی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا ، کیا بڑا ، کیا امیر ، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے ، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا ، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے ۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں ، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے ، خود بھی شک میں پڑ گئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک حضرت عیسیٰ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں ۔ جناب مسیح علیہ السلام سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آ گیا ، تم نے خود طلب کیا ، تمہارے نبی کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا ، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا ، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی ، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی آہ اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں ، مجھے تو ڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہو ۔ دن غروب ہوا اور یہ بے ادب ، گستاخ ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آ گیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پا خانوں کی پلیدی کھا رہے تھے ، یہ اثر بہت غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اغلم ۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا ۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرما دیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہو گئے اور مطالبہ سے دستبردار ہو گئے ۔ حسن کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حضرت حسن اور حضرت مجاہد کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے واللہ اعلم ۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ فرمان ربی آیت ( اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:115 ) میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے ۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ بنی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمین کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا واللہ اعلم ، مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے ، آپ نے فرمایا بالکل سچا وعدہ ہے ، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیتا ہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں ۔ آپ نے فرمایا یا اللہ معاف فرما ، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے ، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔