Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْاَنْعَام نام : اس سورہ کے رکوع ۱٦ و ۱۷ میں بعض اَنعام ( مویشیوں ) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ”اَلانعام“ رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی ۔ حضرت معاذ بن جَبَل کی چچازاد بہن اَسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ ”جب یہ سورۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہی تھی اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے ، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں اب ٹوٹ جائیں گی“ ۔ روایات میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات کو آپ نے اسے قلمبند کرا دیا ۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی دور کے آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی ۔ حضرت اَسماء بنت یزید کی روایت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے ۔ کیونکہ موصوفہ انصار میں سے تھیں اور ہجرت کے بعد ایمان لائیں ۔ اگر قبول اسلام سے پہلے محض بر بناء عقیدت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوئی ہوں گی تو یقینًا یہ حاضری آپ کی مکی زندگی کے آخری سال ہی میں ہوئی ہو گی ۔ اس سے پہلے اہل یثرب کے ساتھ آپ کے تعلقات اتنے بڑھے ہی نہ تھے کہ وہاں سے کسی عورت کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن ہوتا ۔ شان نزول : ”زمانہ نزول متعین ہو جانے کے بعد ہم بآسانی اس پس منظر کو دیکھ سکتے ہیں جس میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے ۔ اس وقت اللہ کے رسول کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے بارہ سال گزر چکے تھے ۔ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفاکاری انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔ اسلام قبول کر نے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ظلم و ستم سے عاجز آکر ملک چھوڑ چکی تھی اور حَبَش میں مقیم تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائد و حمایت کے لیے نہ ابو طالب باقی رہے تھے اور نہ حضرت خَدِیجہ ، اس لیے ہر دنیوی سہارے سے محروم ہو کر آپ شدید مزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے ۔ آپ کی تبلیغ کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح کے قبائل میں بھی صالح افراد پے در پے اسلام قبول کر تے جا رہے تھے ، لیکن قوم بحییثیت مجموعی ردو انکار پر تلی ہوئی تھی ۔ جہاں کوئی شخص اسلام کی طرف ادنیٰ میلان بھی ظاہر کرتا تھا اسے طعن و ملامت ، جسمانی اذیت اور معاشی و معاشرتی مقاطعہ کا ہدف بننا پڑتا تھا ۔ اس تاریک ماحول میں صرف ایک ہلکی سی شعاع یثرب کی طرف نمودار ہوئی تھی جہاں سے اوس اور خزرج کے بااثر لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور جہاں کسی اندرونی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا ۔ مگر اس حقیر سی ابتداء میں مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ تھے انہیں کوئی ظاہر بیں آنکھ نہ دیکھ سکتی تھی ۔ بظاہر دیکھنے والوں کو جو کچھ نظر آتا تھا وہ بس یہ تھا کہ اسلام ایک کمزور سی تحریک ہے جس کی پشت پر کوئی مادی طاقت نہیں ، جس کا داعی اپنے خاندان کی ضعیف سی حمایت کے سوا کوئی زور نہیں رکھتا ، اور جسے قبول کرنے والے چند مٹھی بھر بے بس اور منتشر افراد اپنی قوم کے عقیدہ و مسلک سے منحرف ہو کر اس طرح سوسائیٹی سے نکال پھینکے گئے ہیں جیسے پتے اپنے درخت سے جھڑ کر زمین پر پھیل جائیں ۔ مباحث : ان حالات میں یہ خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے: ( ۱ ) شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت ، ( ۲ ) عقیدہ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، ( ۳ ) جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے ، ( ٤ ) ان بڑے بڑے اصول اخلاق کی تلقین جن پر اسلام سوسائیٹی کی تعمیر کرنا چاہتا تھا ، ( ۵ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کےخلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب ، ( ٦ ) طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی ، ( ۷ ) منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خود کشی پر نصیحت ، تنبیہ اور تہدید ۔ لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو ۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے ۔ مکی زندگی کے ادوار : یہاں چونکہ پہلی مرتبہ ناظرین کے سامنے ایک مفصل مکی سورہ آرہی ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہم مکی سورتوں کے تاریخی پس منظر کی ایک جامع تشریح کردیں تاکہ آئندہ تمام مکی سورتوں کو ، اور ان کی تفسیر کے سلسلہ میں ہمارے اشارات کو سمجھنا آسان ہو جائے ۔ جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے ، ان میں سے تو قریب قریب ہر ایک کا زمانہ نزول معلوم ہے یا تھوڑی سی کاوش سے متعین کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی تو بکثرت آیتوں کی انفرادی شان نزول تک معتبر روایات میں مل جاتی ہے ۔ لیکن مکی سورتوں کے متعلق ہمارے پاس اتنے مفصل ذرائع معلومات موجود نہیں ہیں ۔ بہت کم سورتیں یا آیتیں ایسی ہیں جن کے زمانہ نزول اور موقع نزول کے بارے میں کوئی صحیح و معتبر روایت ملتی ہو ۔ کیونکہ اس زمانہ کی تاریخ اس قدر جزئی تفصیلات کے ساتھ مرتب نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدنی دور کی تاریخ ہے ۔ اس وجہ سے مکی سورتوں کے معاملہ میں ہم کو تاریخی شہادتوں کے بجائے زیادہ تر ان اندرونی شہادتوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مختلف سورتوں کے موضوع ، مضمون اور انداز بیان میں ، اور اپنے پس منظر کی طرف ان کے جلی یا خفی اشارات میں پائی جاتی ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی شہادتوں سے مدد لے کر ایک ایک سورة اور ایک ایک آیت کے متعلق یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فلاں تاریخ کو ، یا فلاں سنہ میں فلاں موقع پر نازل ہو ئی ہے ۔ زیادہ صحت کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف ہم مکی سورتوں کی اندرونی شہادتوں کو ، اور دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کی تاریخ کو آمنے سامنے رکھیں اور پھر دونوں کا تقابل کرتے ہوئے یہ رائے قائم کریں کہ کون سی سورۃ کس دور سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس طرز تحقیق کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دعوت اسلامی کے نقطہ نظر سے ہم کو چار بڑے بڑے نمایاں ادوار پر منقسم نظر آتی ہے: پہلا دور ، آغاز بعثت سے لے کر اعلان نبوت تک ، تقریبًا ۳ سال ، جس میں دعوت خفیہ طور سے خاص خاص آدمیوں کو دی جارہی تھی اور عام اہل مکہ کو اس کا علم نہ تھا ۔ دوسرا دور ، اعلان نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ ( Persecution ) کے آغاز تک ، تقریبًا ۲ سال ، جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی ، پھر اس نے مزاحمت کی شکل اختیار کی ، پھر تضحیک ، استہزاء ، الزامات ، سب و شتم ، جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھہ بندی تک نوبت پہنچی ، اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئیں جو نسبتًہ زیادہ غریب ، کمزور اور بے یار و مددگار تھے ۔ تیسرا دور ، آغاز فتنہ ( سن ۵ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ( سن۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) تک ، تقریبًا پانچ چھ سال ۔ اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی ، بہت سے مسلمان کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور آپ اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے ۔ چوتھا دور ، سن ۱۰ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سن ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تقریبًا ۳ سال ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے انتہائی سختی و مصیبت کا زمانہ تھا ۔ مکہ میں آپ کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی ، طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی ، حج کے موقع پر عرب کے ایک ایک قبیلہ سے آپ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا ۔ اور ادھر اہل مکہ بار بار یہ مشورے کرتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں یا قید کردیں یا اپنی بستی سے نکال دیں ۔ آخر کار اللہ کے فضل سے انصار کے دل اسلام کے لیے کھل گئے اور انکی دعوت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ ان میں سے ہر دور میں قرآن مجید کی سورتیں نازل ہوئی ہیں ۔ وہ اپنے مضامین اور انداز بیان میں دوسرے دور کی سورتوں سے مختلف ہیں ۔ ان میں بکثرت مقامات پر ایسے اشارات بھی پائے جاتے ہیں جن سے پس منظر کے حالات اور واقعات پر صاف روشنی پڑتی ہے ۔ ہر دور کی خصوصیات کا اثر اس دور کے نازل شدہ کلام میں بہت بڑی حد تک نمایاں نظر آتا ہے ۔ انہی علامات پر اعتماد کر کے ہم آئندہ ہر مکی سورہ کے دیباچہ میں یہ بتائیں گے کہ وہ مکہ کے کس دور میں نازل ہوئی ہے ۔
تفسیر سورۃ الانعام یہ سورت مکے میں اتری ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ ایک ساتھ ہی ایک ہی رات میں مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے ، اس کے اردگرد ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح پڑھ رہے تھے ایک روایت میں ہے کہ اس وقت حضور کہیں جا رہے تھے فرشتوں کی کثرت زمین سے آسمان تک تھی ، یہ ستر ہزار فرشتے اس سورت کے پہنچانے کے لئے آئے تھے ، مستدرک حاکم میں ہے ، اس سورت کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس مبارک سورت کو پہنچانے کیلئے اس قدر فرشتے آئے تھے کہ آسمان کے کنارے دکھائی نہیں دیتے تھے ، ابن مردویہ میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں کی اس وقت کی تسبیح نے ایک گونج پیدا کر دی تھی زمین گونج رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ العظیم پڑھ رہے تھے ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھ پر سورہ انعام ایک دفعہ ہی اتری ۔ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح و حمد بیان کر رہے تھے ۔