Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَقَالُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ مَلَكٌ‌ ؕ وَلَوۡ اَنۡزَلۡـنَا مَلَـكًا لَّـقُضِىَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا يُنۡظَرُوۡنَ‏ ﴿8﴾
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا ۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی
و قالوا لو لا انزل عليه ملك و لو انزلنا ملكا لقضي الامر ثم لا ينظرون
And they say, "Why was there not sent down to him an angel?" But if We had sent down an angel, the matter would have been decided; then they would not be reprieved.
Aur yeh log yun kehtay hain kay inn kay pass koi farishta kiyon nahi utara gaya aur agar hum koi farishat bhej detay to sara qissa hi khatam ho jata. Phir inn ko zara mohlat na di jati.
اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ : اس ( پیغمبر ) پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ حالانکہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتار دیتے تو سارا کام ہی تمام ہوجاتا ( ٣ ) پھر ان کو کوئی مہلت نہ دی جاتی
اور بولے ( ف۱۹ ) ان پر ( ف۲۰ ) کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ، اور اگر ہم فرشتہ اتارتے ( ف۲۱ ) تو کام تمام ہوگیا ہوتا ( ف۲۲ ) پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی ( ف۲۳ )
کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ 5 اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ 6
اور وہ ( کفّار ) کہتے ہیں کہ اس ( رسولِ مکرّم ) پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ( جسے ہم ظاہراً دیکھ سکتے اور وہ ان کی تصدیق کردیتا ) ، اور ہم اگر فرشتہ اتار دیتے تو ( ان کا ) کام ہی تمام ہوچکا ہوتا پھر انہیں ( ذرا بھی ) مہلت نہ دی جاتی
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :5 یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے ، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی ۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالق ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اس طرح اسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سننے کے لیے چھوڑ دے ۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ، اس کا رعب بٹھاتا ، اس کی ماموریت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :6 یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے ۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا ، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا ۔ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا ۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے ، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں ، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں ۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دنیوی زندگی ، جو دراصل مہلت امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب ، غیب ہے ۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا ، یہ مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا ۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدت ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸ )