Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَ مَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ‌ ؕ وَلَـلدَّارُ الۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَ‌ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿32﴾
اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو و لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں ۔
و ما الحيوة الدنيا الا لعب و لهو و للدار الاخرة خير للذين يتقون افلا تعقلون
And the worldly life is not but amusement and diversion; but the home of the Hereafter is best for those who fear Allah , so will you not reason?
Aur dunyawi zindagi to kuch bhi nahi ba-juz lahoo-o-laab kay. Aur daar-e-aakhirat mutaqqiyon kay liye behtar hai. Kiya tum sochtay samajhtay nahi ho.
اور دنیوی زندگی تو ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ( ٨ ) اور یقین جانو کہ جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں ، ان کے لیے آخرت والا گھر کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟
اور دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود ( ف۷۰ ) اور بیشک پچھلا گھر بھلا ان کے لئے جو ڈرتے ہیں ( ف۷۱ ) تو کیا تمہیں سمجھ نہیں ،
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے ، 20 حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ، پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟
اور دنیوی زندگی ( کی عیش و عشرت ) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، کیا تم ( یہ حقیقت ) نہیں سمجھتے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :20 اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے اور یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے ۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کی مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہو جائے ۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بے بصیرت اور ظاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے ۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشا ہے ۔ حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی ۔ ڈائرکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ، قید کیا جاتا ہے اور اس کےقتل تک کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی تماشے اس دنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں ۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں ، حالانکہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں ۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے ، حالانکہ غیب کے علم کا وہاں شائبہ تک نہیں ۔ کہیں کوئی لوگوں کا رزاق بنا ہوا ہے ، حالانکہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اور کا محتاج ہے ۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزت اور ذلت دینے والا ، نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گردو پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے ، حالانکہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گرا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرا سکتا ہے جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا ۔ یہ سب کھیل جو دینا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جارہے ہیں ، موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہو جائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اس عالم میں پہنچ جائے گا جہاں سب کچھ عین مطابق حقیقت ہوگا اور جہاں دنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزان حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہو سکتا ہو ۔