Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قَدۡ خَسِرَ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰهِ‌ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَتۡهُمُ السَّاعَةُ بَغۡتَةً قَالُوۡا يٰحَسۡرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطۡنَا فِيۡهَا ۙ وَهُمۡ يَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَهُمۡ عَلٰى ظُهُوۡرِهِمۡ‌ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ‏ ﴿31﴾
بے شک خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتًا آپہنچے گا ، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی ، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے ، خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ چیز جس کو وہ لادیں گے ۔
قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله حتى اذا جاءتهم الساعة بغتة قالوا يحسرتنا على ما فرطنا فيها و هم يحملون اوزارهم على ظهورهم الا ساء ما يزرون
Those will have lost who deny the meeting with Allah , until when the Hour [of resurrection] comes upon them unexpectedly, they will say, "Oh, [how great is] our regret over what we neglected concerning it," while they bear their burdens on their backs. Unquestionably, evil is that which they bear.
Be-shak khasaray mein paray woh log jinhon ney Allah say milney ki takzeeb ki yahan tak kay jab woh moyyen waqt unn per dafatan aa phonchay ga kahen gay kay haaye afsos humari kotahi per jo iss kay baray mein hui aur halat inn ki yeh hogi kay woh apney baar apni peethon per laaday hongay khoob sunn lo kay buri hogi woh cheez jiss ko woh laaden gay.
حقیقت یہ ہے کہ بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے جا ملنے کو جھٹلایا ہے ، یہاں تک کہ جب قیامت اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو وہ کہیں گے : ہائے افسوس ! کہ ہم نے اس ( قیامت ) کے بارے میں بڑی کوتاہی کی ۔ اور وہ ( اس وقت ) اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ ( لہذا ) خبردار رہو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لوگ اٹھا رہے ہیں ۔
بیشک ہار میں رہے وہ جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کا انکار کیا ، یہاں تک کہ جب ان پر قیامت اچانک آگئی بولے ہائے افسوس ہمارا اس پر کہ اس کے ماننے میں ہم نے تقصیر کی ، اور وہ اپنے ( ف٦۸ ) بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں ارے کتنا برُا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ( ف٦۹ )
نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا ۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی ۔ اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو ! کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔
پس ایسے لوگ نقصان میں رہے جنہوں نے اﷲ کی ملاقات کو جھٹلا دیا یہاں تک کہ جب ان کے پاس اچانک قیامت آپہنچے گی ( تو ) کہیں گے: ہائے افسوس! ہم پر جو ہم نے اس ( قیامت پر ایمان لانے ) کے بارے میں ( تقصیر ) کی ، اور وہ اپنی پیٹھوں پر اپنے ( گناہوں کے ) بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ، سن لو! وہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں
پشیمانی مگر جہنم دیکھ کر! قیامت کو جھٹلانے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ جانے کے بعد انہیں ہو گا ۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ ، بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے ۔ فیھا کی ضمیر کا مرجع ممکن ہے حیاۃ ہو اور ممکن ہے اعمال ہو اور ممکن ہے دار آخرت ہو ، یہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدے ہوئے ہوں گے ، اپنی بد کرداریاں اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ آہ! کیا برا بوجھ ہے؟ حضرت ابو مرزوق فرماتے ہیں کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک ، خوفناک اور بد صورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی سخت بد بو آ رہی ہو گی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گا خواب! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں؟ یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بد صورت کریہہ منظر اور تیز بد بو والا ہے تجھ سے زیادہ بد صورت کوئی بھی نہ ہو گا ، وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا ۔ سن تو دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے ، حضرت سدی فرماتے ہیں کہ جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی لاش کے قبر میں پہنچتے ہی ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بد صورت سخت بد بودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس والا یہ اسے دیکھتے ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بد صورت ہے بد بو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس نہایت متعفن ہے ، یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون؟ یہ کہتا ہے تیرے عمل کا مجسمہ ، اب یہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کیلئے عذابوں کے ساتھ ہی ایک عذاب ہوتا ہے جب قیامت کے دن یہ اپنی قبر سے چلے گا تو یہ کہے گا ٹھہر جاؤ دنیا میں تو نے میری سواری لی ہے اب میں تیری سواری لوں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے مارتا پیٹتا ذلت کے ساتھ جانوروں کی طرح ہنکاتا ہوا جہنم میں پہنچاتا ہے ۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے اس جملے کے ہیں ۔ دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا ، آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم ، البتہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہو گیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے ؟