Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
بَلۡ اِيَّاهُ تَدۡعُوۡنَ فَيَكۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَيۡهِ اِنۡ شَآءَ وَتَنۡسَوۡنَ مَا تُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿41﴾
بلکہ خاص اسی کو پکارو گے ، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے ۔
بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء و تنسون ما تشركون
No, it is Him [alone] you would invoke, and He would remove that for which you invoked Him if He willed, and you would forget what you associate [with Him].
Bulkay khaas ussi ko pukaro gay phir jiss kay liye tum pukaro gay agar woh chahaye to uss ko hata bhi dey aur jin ko tum shareek thehratay ho unn sab ko bhool bhaal jao gay.
بلکہ اسی کو پکارو گے ، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے ، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا ، اور جن ( دیوتاؤں ) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو ( اس وقت ) ان کو بھول جاؤ گے ۔ ( ١٤ )
بلکہ اسی کو پکارو گے تو وہ اگر چاہے ( ف۹۵ ) جس پر اسے پکارتے ہو اسے اٹھالے اور شریکوں کو بھول جاؤ گے ( ف۹٦ )
اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو ، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو ۔ 29 ؏٤
۔ ( ایسا ہرگز ممکن نہیں ) بلکہ تم ( اب بھی ) اسی ( اﷲ ) کو ہی پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو ان ( مصیبتوں ) کو دور فرما دیتا ہے جن کے لئے تم ( اسے ) پکارتے ہو اور ( اس وقت ) تم ان ( بتوں ) کو بھول جاتے ہو جنہیں ( اﷲ کا ) شریک ٹھہراتے ہو
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :29 گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ اس کے بعد اب ایک دوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے جو خود منکرین حق کے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے ، یا موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے ، اس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دوسری پناہ گاہ اسے نظر نہیں آتی ۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبودوں کو بھول کر خداے واحد کو پکارنے لگتے ہیں ۔ کٹے سے کٹا دہریہ تک خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں ، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ ابوجہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی ۔ جب مکہ معظمہ نبی صلی علیہ وسلم کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو عِکْرِمہ جدہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی ۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی ۔ اول اول تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا ۔ مگر جب طوفان کی شدت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہو گیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے ، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں ۔ اس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو ۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں ۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کن لمحہ تھا ۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی ۔