Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَلَا تَطۡرُدِ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ‌ ؕ مَا عَلَيۡكَ مِنۡ حِسَابِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ وَّمَا مِنۡ حِسَابِكَ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَتَطۡرُدَهُمۡ فَتَكُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿52﴾
اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح وشام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں ، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں ۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔
و لا تطرد الذين يدعون ربهم بالغدوة و العشي يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء و ما من حسابك عليهم من شيء فتطردهم فتكون من الظلمين
And do not send away those who call upon their Lord morning and afternoon, seeking His countenance. Not upon you is anything of their account and not upon them is anything of your account. So were you to send them away, you would [then] be of the wrongdoers.
Aur unn logon ko na nikaliye jo subha-o-shaam apney perwerdigar ki ibadat kertay hain khaas ussi ki raza ka qasad rakhtay hain. Unn ka hisab zara bhi aap kay mutalliq nahi aur aap ka hisab zara bhi unn kay mutalliq nahi kay aap unn ko nikal den. Werna aap zulm kerney walon mein say hojayen gay.
اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں ۔ ( ١٩ ) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو ، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ ۔
اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح اور شام اس کی رضا چاہتے ( ف۱۱٦ ) تم پر ان کے حساب سے کچھ نہیں اور ان پر تمہارے حساب سے کچھ نہیں ( ف۱۱۷ ) پھر انہیں تم دور کرو تو یہ کام انصاف سے بعید ہے
اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔ 34 ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔ 35
اور آپ ان ( شکستہ دل اور خستہ حال ) لوگوں کو ( اپنی صحبت و قربت سے ) دور نہ کیجئے جو صبح و شام اپنے رب کو صرف اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے رہتے ہیں ، ان کے ( عمل و جزا کے ) حساب میں سے آپ پر کوئی چیز ( واجب ) نہیں اور نہ آپ کے حساب میں سے کوئی چیز ان پر ( واجب ) ہے ( اگر ) پھر بھی آپ انہیں ( اپنے لطف و کرم سے ) دور کردیں تو آپ حق تلفی کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے ( جوآپ کے شایانِ شان نہیں )
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :34 قریش کے بڑے بڑے سرداروں اور کھاتے پیتے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر منجملہ اور اعتراضات کے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش ہماری قوم کے غلام ، موالی اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ جمع ہو گئے ہیں ۔ وہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ اس شخص کو ساتھی بھی کیسے کیسے معزز لوگ ملے ہیں ، بلال ، عمّار ، صُہَیْب اور خَبّاب ۔ بس یہی لوگ اللہ کو ہمارے درمیان ایسے ملے جن کو برگزیدہ کیا جا سکتا تھا! پھر وہ ان ایمان لانے والوں کی خستہ حالی کا مذاق اڑانے پر ہی اکتفا نہ کرتے تھے ، بلکہ ان سے جس جس سے کبھی پہلے کوئی اخلاقی کمزوری ظاہر ہوئی تھی اس پر بھی حرف گیریاں کرتے تھے ، اور کہتے تھے کہ فلاں جو کل تک یہ تھا اور فلاں جس نے یہ کیا تھا آج وہ بھی اس ” برگزیدہ گروہ“ میں شامل ہے ۔ انہی باتوں کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :35 یعنی ہر شخص اپنے عیب و صواب کا ذمہ دار آپ ہی ہے ۔ ان مسلمان ہونے والوں میں سے کسی شخص کی جواب دہی کے لیے تم کھڑے نہ ہوگے اور نہ تمہاری جواب دہی کے لیے ان میں سے کوئی کھڑا ہوگا ۔ تمہارے حصہ کی کوئی نیکی یہ تم سے چھین نہیں سکتے اور اپنے حصہ کی کوئی بدی تم پر ڈال نہیں سکتے ۔ پھر جب یہ محض طالب حق بن کر تمہارے پاس آتے ہیں تو آخر تم کیوں انہیں اپنے سے دور پھینکو ۔