Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَكَذَّبَ بِهٖ قَوۡمُكَ وَهُوَ الۡحَـقُّ‌ ؕ قُلْ لَّسۡتُ عَلَيۡكُمۡ بِوَكِيۡلٍؕ‏ ﴿66﴾
اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں ۔
و كذب به قومك و هو الحق قل لست عليكم بوكيل
But your people have denied it while it is the truth. Say, "I am not over you a manager."
Aur aap ki qom iss ki takzeeb kerti hai halankay woh yaqeeni hai. Aap keh dijiye kay mein tum per taaeenaat nahi kiya gaya hun.
اور ( اے پیغمبر ) تمہاری قوم نے اس ( قرآن ) کو جھٹلایا ہے ، حالانکہ وہ بالکل حق ہے ۔ تم کہہ دو کہ : مجھ کو تمہاری ذمہ داری نہیں سونپی گئی ( ٢٤ )
اور اسے ( ف۱٤۲ ) جھٹلایا تمہاری قوم نے اور یہی حق ہے ، تم فرماؤ میں تم پر کچھ کڑوڑا ( حاکمِ اعلیٰ ) نہیں ( ف۱٤۳ )
تمہاری قوم اس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے ۔ ان سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں ، 43
اور آپ کی قوم نے اس ( قرآن ) کو جھٹلا ڈالا حالانکہ وہ سراسر حق ہے ۔ فرما دیجئے: میں تم پر نگہبان نہیں ہوں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :43 یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں ۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں ۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے ۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس برے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا ۔
غلط تاویلیں کرنے والوں سے نہ ملو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ عالی کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھتلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے کہدے کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے ، یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے ، ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی ، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ، پھر فرمایا جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ، اس آیت میں گو فرمان حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپ کی امت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بےجا تاویلیں کرتے ہوں ، اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبر دستی مجبور کر کے کرائے جائیں ۔ اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے آیت ( وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَهْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖٓ ) 4 ۔ النسآء:140 ) یعنی تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو ، پھر فرمان ہے کہ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ، دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بےگناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ) 4 ۔ النسآء:140 ) سے منسوخ ہے ۔ ان مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں ۔