Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يَلۡبِسُوۡۤا اِيۡمَانَهُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمُ الۡاَمۡنُ وَهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿82﴾
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں ۔
الذين امنوا و لم يلبسوا ايمانهم بظلم اولىك لهم الامن و هم مهتدون
They who believe and do not mix their belief with injustice - those will have security, and they are [rightly] guided.
Jo log eman rakhtay hain aur apney eman ko shirk kay sath makhloot nahi kertay aison hi kay liye aman hai aur wohi raah-e-raast per chal rahey hain.
۔ ( حقیقت تو یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کاشائبہ بھی آنے نہیں دیا ( ٣٠ ) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے ، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں ۔
وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں ،
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا ۔ 55 ؏۹
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ( شرک کے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا انہی لوگوں کے لئے امن ( یعنی اُخروی بے خوفی ) ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :55 یہ پوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات و الارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جرم اللہ کے ساتھ دوسروں کو خدائی صفات اور خداوندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا ۔ اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ کے ساتھ دوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو ۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں ، یہ انداز بیان صرف انہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے نفس وجود سے منکر نہ ہوں ۔ لہٰذا ان مفسرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ میں دوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قوم ابراہیم علیہ السلام اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبودوں ہی کو خدائی کا بالکلیہ مالک سمجھتی تھی ۔ آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ”جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“ ، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصریح فرمادی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے ۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں ، امن صرف انہی کے لیے ہے اور وہی راہ راست پر ہیں ۔ اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابرہیم علیہ السلام کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطہ آغاز ہے ، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پا سکا ہے ۔ البتہ تَلمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کو سورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے ۔ دوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی ۔