Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ قَـتۡلَ اَوۡلَادِهِمۡ شُرَكَآؤُهُمۡ لِيُرۡدُوۡهُمۡ وَلِيَلۡبِسُوۡا عَلَيۡهِمۡ دِيۡنَهُمۡ‌ ۚ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوۡهُ ‌ؕ فَذَرۡهُمۡ وَمَا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿137﴾
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے تو آپ ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے ۔
و كذلك زين لكثير من المشركين قتل اولادهم شركاؤهم ليردوهم و ليلبسوا عليهم دينهم و لو شاء الله ما فعلوه فذرهم و ما يفترون
And likewise, to many of the polytheists their partners have made [to seem] pleasing the killing of their children in order to bring about their destruction and to cover them with confusion in their religion. And if Allah had willed, they would not have done so. So leave them and that which they invent.
Aur issi tarah boht say mushrikeen kay khayal mein unn kay maboodon ney unn ki aulad kay qatal kerney ko mustehsan bana rakha hai takay woh inn ko barbad keren aur takay inn kay deen ko inn per mushtaba ker den aur agar Allah ko manzoor hota to yeh aisa kaam na kertay to aap inn ko aur jo kuch ghalat baaten yeh bana rahey hain yun hi rehney dijiye.
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کو ان کے شریکوں نے سجھا رکھا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا بڑا چھا کام ہے ، تاکہ وہ ان ( مشرکین ) کو بالکل تباہ کر ڈالیں ، اور ان کے لیے ان کے دین کے معاملے میں مغالطے پیدا کردیں ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے ۔ ( ٦٧ ) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو ۔
اور یوں ہی بہت مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل بھلا کر دکھایا ہے ( ف۲۷۳ ) کہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین ان پر مشتبہ کردیں ( ف۲۷٤ ) اور اللہ چاہتا تو ایسا نہ کرتے تو تم انہیں چھوڑ دو وہ ہیں اور ان کے افتراء ،
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے 107 تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں 108 اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ 109 اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ، لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ 110
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کو مار ڈالنا ( ان کی نگاہ میں ) خوش نما کر دکھایا ہے تاکہ وہ انہیں برباد کر ڈالیں اور ان کے ( بچے کھچے ) دین کو ( بھی ) ان پر مشتبہ کر دیں ، اور اگر اﷲ ( انہیں جبراً روکنا ) چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے پس آپ انہیں اور جو افترا پردازی وہ کر رہے ہیں ( اسے نظرانداز کرتے ہوئے ) چھوڑ دیجئے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :107 یہاں”شریکوں“ کا لفظ ایک دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اوپر کے معنی سے مختلف ہے ۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ”شریک“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسط کو یہ لوگ نعمت کے حصول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکر نعمت کے استحقاق میں انہیں خدا کے ساتھ حصہ دار بناتے تھے ۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ”شریک“ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتل اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا ۔ انہیں شریک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے ۔ لہٰذا جس طرح کسی دوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے ، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے ۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں ، خواہ ان کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور رب کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا جن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے ۔ قتل اولاد کی تین صورتیں اہل عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ( ۱ ) لڑکیوں کا قتل ، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے ، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں ۔ ( ۲ ) بچوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابل برداشت بوجھ بن جائیں گے ۔ ( ۳ ) بچوں کو اپنے معبودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :108 یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے ۔ اس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جو ہر انسانیت تو درکنار جوہر حیوانیت تک باقی نہیں رہتا ۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتل اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے ، جس سے نوع انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے ، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدن کے کارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی ، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں انہیں ختم کر ڈالتی ہے ۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصوم بچوں پر یہ ظلم کرتا ہے ، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں الٹی چھری سے ذبح کرتا ہے ، اور جو نوع انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دشمنی کرتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :109 زمانہ جاہلیت کے عرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کر رہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے ۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام سے سیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشوا ، قبائل کے سردار ، خاندانوں کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا اضافہ کرتے چلے گئے جنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزء سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی ۔ چونکہ روایات میں ، یا تاریخ میں ، یا کسی کتاب میں ایسا کوئی ریکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیز یں کس زمانہ میں کس نے کس طرح اضافہ کیں ، اس وجہ سے اہل عرب کے لیے ان کا پورا دین مشتبہ ہو کر رہ گیا تھا ۔ نہ کسی چیز کے متعلق یقین کے ساتھ یہی کہہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جزء ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا ، اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھا دیں ۔ اسی صورت حال کی ترجمانی اس فقرے میں کی گئی ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :110 یعنی اگر اللہ چاہتا کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ کی مشیت یہی تھی کہ جو شخص جس راہ پر جانا چاہتا ہے اسے جانے کا موقع دیا جائے ، اسی لیے یہ سب کچھ ہوا ۔ پس اگر یہ لوگ تمہارے سمجھانے سے نہیں مانتے اور ان افترا پردازیوں ہی پر انہیں اصرار ہے تو جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دو ، ان کے پیچھے پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں ۔
شیطان کے چیلے جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بےوجہ قتل کر دیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ، قرآن نے فرمایا کہ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئیں پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔ لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ۔