Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَقَالُوۡا هٰذِهٖۤ اَنۡعَامٌ وَّحَرۡثٌ حِجۡرٌ ‌ۖ لَّا يَطۡعَمُهَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ بِزَعۡمِهِمۡ وَاَنۡعَامٌ حُرِّمَتۡ ظُهُوۡرُهَا وَاَنۡعَامٌ لَّا يَذۡكُرُوۡنَ اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا افۡتِرَآءً عَلَيۡهِ ‌ؕ سَيَجۡزِيۡهِمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿138﴾
اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ موایشی ہیں اور کھیت ہے جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں اور موایشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کر دی گئی اور کچھ موایشی ہیں جن پر یہ لوگ اللہ تعالٰی کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر ۔ ابھی اللہ تعالٰی ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے ۔
و قالوا هذه انعام و حرث حجر لا يطعمها الا من نشاء بزعمهم و انعام حرمت ظهورها و انعام لا يذكرون اسم الله عليها افتراء عليه سيجزيهم بما كانوا يفترون
And they say, "These animals and crops are forbidden; no one may eat from them except whom we will," by their claim. And there are those [camels] whose backs are forbidden [by them] and those upon which the name of Allah is not mentioned - [all of this] an invention of untruth about Him. He will punish them for what they were inventing.
Aur woh apney khayal per yeh bhi kehtay hain kay yeh kuch mawashi hain aue khet hain jin ka isteymaal her shaks ko jaeez nahi inn ko koi nahi kha sakta siwaye unn kay jin ko hum chahayen aur mawashi hain jin per sawari ya baar bardari haram ker di gaee aue kuch mawashi hain jin per yeh log Allah Taalaa ka naam nahi letay mehaz Allah per iftra bandhney kay tor per. Abhi Allah Taalaa inn ko inn kay iftra ki saza diye deta hai.
اور یوں کہتے ہیں کہ : ان چوپایوں اور کھیتیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ ان کا زعم یہ ہے کہ : ان کو سوائے ان لوگوں کے کوئی نہیں کھا سکتا جنہیں ہم کھلانا چاہیں ۔ ( ٦٨ ) ۔ اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پشت حرام قرار دی گئی ہے ، ( ٦٩ ) اور کچھ چوپائے وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے ۔ ( ٧٠ ) جو افترا پردازی یہ لوگ کر رہے ہیں ، اللہ انہیں عنقریب اس کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔
اور بولے ( ف۲۷۵ ) یہ مویشی اور کھیتی روکی ہوئی ( ف۲۷٦ ) ہے اسے وہی کھائے جسے ہم چاہیں اپنے جھوٹے خیال سے ( ف۲۷۷ ) اور کچھ مویشی ہیں جن پر چڑھنا حرام ٹھہرایا ( ف۲۷۸ ) اور کچھ مویشی کے ذبح پر اللہ کا نام نہیں لیتے ( ف۲۷۹ ) یہ سب اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے ، عنقریب وہ انہیں بدلے دے گا ان کے افتراؤں کا ،
کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ، انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں ، حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ 111 پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے 112 ، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے ، 113 عنقریب اللہ انہیں ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا ۔
اور اپنے خیالِ ( باطل ) سے ( یہ بھی ) کہتے ہیں کہ یہ ( مخصوص ) مویشی اور کھیتی ممنوع ہے ، اسے کوئی نہیں کھا سکتا سوائے اس کے جسے ہم چاہیں اور ( یہ کہ بعض ) چوپائے ایسے ہیں جن کی پیٹھ ( پر سواری ) کو حرام کیا گیا ہے اور ( بعض ) مویشی ایسے ہیں کہ جن پر ( ذبح کے وقت ) یہ لوگ اﷲ کا نام نہیں لیتے ( یہ سب ) اﷲ پر بہتان باندھنا ہے ، عنقریب وہ انہیں ( اس بات کی ) سزا دے گا جو وہ بہتان باندھتے تھے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :111 اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ بعض جانوروں کے متعلق یا بعض کھیتیوں کی پیداوار کے متعلق منت مان لیتے تھے کہ یہ فلاں آستانے یا فلاں حضرت کی نیاز کے لیے مخصوص ہیں ۔ اس نیاز کو ہر ایک نہ کھا سکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان کے ہاں ایک مفصل ضابطہ تھا جس کی رو سے مختلف نیازوں کو مختلف قسم کے مخصوص لوگ ہی کھا سکتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہ صرف مشرکانہ افعال میں شمار کرتا ہے ، بلکہ اس پہلو پر بھی تنبیہ فرماتا ہے کہ یہ ضابطہ ان کا خود ساختہ ہے ۔ یعنی جس خدا کے رزق میں سے وہ یہ منتیں مانتے اور نیازیں کرتے ہیں اس نے نہ ان منتوں اور نیازوں کا حکم دیا ہے اور نہ ان کے کھانے کے متعلق یہ پابندیاں عائد کی ہیں ۔ یہ سب کچھ ان خود سر اور باغی بندوں نے اپنے اختیار سے خود ہی تصنیف کر لیا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :112 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کے ہاں بعض مخصوص منتوں اور نذروں کے جانور ایسے ہوتے تھے جن پر خدا کا نام لینا جائز نہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان پر سوار ہو کر حج کرنا ممنوع تھا ، کیونکہ حج کے لیے لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہنا پڑتا تھا ۔ اسی طرح ان کا دودھ دوہتے وقت ، یا ان پر سوار ہونے کی حالت میں ، یا ان کو ذبح کرتے ہوئے ، یا ان کو کھانے کے وقت اہتمام کیا جاتا تھا کہ خدا کا نام زبان پر نہ آئے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :113 یعنی قاعدے خدا کے مقرر کیے ہوئے نہیں ہیں ، مگر وہ ان کی پابندی یہی سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں کہ انہیں خدا نے مقرر کیا ہے ، اور ایسا سمجھنے کے لیے ان کے پاس خدا کے کسی حکم کی سند نہیں ہے بلکہ صرف یہ سند ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آرہا ہے ۔
اللہ کا مقرر کردہ راستہ حجر کے معنی احرام کے ہیں ۔ یہ طریقے شیطانی تھے کوئی اللہ کا مقرر کردہ راستہ نہ تھا ۔ اپنے معبودوں کے نام یہ چیزیں کر دیتے تھے ۔ پھر جسے چاہتے کھلاتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ) 10 ۔ یونس:59 ) یعنی بتلاؤ تو یہ اللہ کے دیئے رزق میں سے تم جو اپنے طور پر حلال حرام مقرر کر لیتے ہو اس کا حکم تمہیں اللہ نے دیا ہے یا تم نے خود ہی خود پر تراش لیا ہے؟ دوسری آیت میں صاف فرمایا آیت ( مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:103 ) یعنی یہ کافروں کی نادانی ، افتراء اور جھوٹ ہے ۔ بحیرہ سائبہ اور حام نام رکھ کر ان جانوروں کو اپنے معبودان باطل کے نام پر داغ دیتے تھے پھر ان سے سواری نہیں لیتے تھے ، جب ان کے بچے ہوتے تھے تو انہیں ذبح کرتے تھے حج کے لئے بھی ان جانوروں پر سواری کرنا حرام جانتے تھے ۔ نہ کسی کام میں ان کو لگاتے تھے نہ ان کا دودھ نکالتے تھے پھر ان کاموں کو شرعی کام قرار دیتے تھے اور اللہ کا فرمان جانتے تھے اللہ انہیں ان کے اس کرتوت کا اور بہتان بازی کا بدلہ دے گا ۔