Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
هَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِيَهُمُ الۡمَلٰۤٮِٕكَةُ اَوۡ يَاۡتِىَ رَبُّكَ اَوۡ يَاۡتِىَ بَعۡضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ؕ يَوۡمَ يَاۡتِىۡ بَعۡضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنۡفَعُ نَفۡسًا اِيۡمَانُهَا لَمۡ تَكُنۡ اٰمَنَتۡ مِنۡ قَبۡلُ اَوۡ كَسَبَتۡ فِىۡۤ اِيۡمَانِهَا خَيۡرًا‌ ؕ قُلِ انْتَظِرُوۡۤا اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ‏ ﴿158﴾
کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی ( بڑی ) نشانی آئے جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ۔ ہو آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں ۔
هل ينظرون الا ان تاتيهم الملىكة او ياتي ربك او ياتي بعض ايت ربك يوم ياتي بعض ايت ربك لا ينفع نفسا ايمانها لم تكن امنت من قبل او كسبت في ايمانها خيرا قل انتظروا انا منتظرون
Do they [then] wait for anything except that the angels should come to them or your Lord should come or that there come some of the signs of your Lord? The Day that some of the signs of your Lord will come no soul will benefit from its faith as long as it had not believed before or had earned through its faith some good. Say, "Wait. Indeed, we [also] are waiting."
Kiya yeh log sirf iss amar kay muntazir hain kay inn kay pass farishtay aayen ya inn kay pass aap ka rab aaye ya aap kay rab ki koi ( bari ) nishani aaye? Jiss roz aap kay rab ki koi bari nishani aa phoncya gi kissi aisay shaks ka eman uss kay kaam na aaye ga jo pehlay say eman nahi rakhta. Ya uss ney apney eman mein koi nek amal na kiya ho. Aap farma dijiye kay tum muntazir raho hum bhi muntazir hain.
یہ ( ایمان لانے کے لیے ) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ، یا تمہارا پروردگار خود آئے ، یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آجائیں؟ ( حالانکہ ) جس دن تمہارے پروردگار کی کوئی نشانی آگئی ، اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کار آمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو ، یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو ۔ ( ٨٤ ) ( لہذا ان لوگوں سے ) کہہ دو کہ : اچھا ، انتظار کرو ، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں ۔
کاہے کے انتظار میں ہیں ( ف۳۳۰ ) مگر یہ کہ آئیں ان کے پاس فرشتے ( ف۳۳۱ ) یا تمہارے رب کا عذاب یا تمہارے رب کی ایک نشانی آئے ( ف۳۳۲ ) جس دن تمہارے رب کی وہ ایک نشانی آئے گی کسی جان کو ایمان لانا کام نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لائی تھی یا اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی تھی ( ف۳۳۳ ) تم فرماؤ رستہ دیکھو ( ف۳۳٤ ) ہم بھی دیکھتے ہیں ،
کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آ کھڑے ہوں ، یا تمہارا رب خود آجائے ، یا تمہارے رب کی بعض صریح نشانیاں نمودار ہو جائیں؟ جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں139 گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو ۔ 140 اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہہ دو کہ اچھا ، تم انتظار کرو ، ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔
وہ فقط اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس ( عذاب کے ) فرشتے آپہنچیں یا آپ کا رب ( خود ) آجائے یا آپ کے رب کی کچھ ( مخصوص ) نشانیاں ( عیاناً ) آجائیں ۔ ( انہیں بتا دیجئے کہ ) جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں ( یوں ظاہراً ) آپہنچیں گی ( تو اس وقت ) کسی ( ایسے ) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان ( کی حالت ) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی ، فرما دیجئے: تم انتظار کرو ہم ( بھی ) منتظر ہیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :139 یعنی آثار قیامت ، یا عذاب ، یا کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کر دینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی سوال باقی نہ رہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :140 یعنی ایسی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بے معنی ہے ، اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی بے معنی ، اس لیے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردے میں ہے ، مہلت کی رسی دراز نظر آرہی ہے ، اور دنیا اپنی ساری متاع غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت ، بس کھاؤ پیو اور مزے کرو ۔
قیامت اور بےبسی اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار ، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا ، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دجال کا آنا ، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا ۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے ۔ حضرت ابو ذر سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوجھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہدیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بےنفع ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں حضور بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج کا آنا ، عیسیٰ بن مریم کا آنا اور دجال کا نکلنا ، مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبر دست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہ گی ( مسلم وغیرہ ) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گذاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہو گی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہو گا ۔ ( ابن مردویہ ) ایک حدیث میں حضور کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے ، ایک روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی یہی ہو گی اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے اور حدیث میں ہے لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہو گی اسے تہجد گذار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کر دین گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ ناگہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہو گیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہو گا ، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں اور روایت میں ہے کہ تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی ، حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الٰہی سے مغرب سے ہی نکلنا ہو گا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت تلات فرمائی ، طبرانی میں ہے کہ جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الہی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی ، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے اللہ اعلم ۔ حضور فرماتے ہیں ہجرت منقطع نہ ہو گی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے ۔ ابن مسعود کا فرمان ہے کہ بہت سے نشانات گذر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں ، سورج کا نکلنا دجال دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے ۔ ایک طویل مرفوع غیب منکر حدیث میں ہے کہ اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے ۔ اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعوی اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے ۔ ہاں ابن عباس یا وہیب بن منبہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا کاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بےسود ہو گا ، ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہو گا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہو گی جیسے کہ پہلے حدیثیں گذر چکیں برے لوگوں کے نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لیں گے بعد کام نہ آئیں گے ۔ پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی ہوتا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں جیسے اور آیت میں ہے ( ھل ینظرون الا الساعتہ ) الخ ، قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہے اس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آچکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں؟ اور آیت میں ہے ( فلما راوا باسنا ) ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بےسود ہے ۔