Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَـعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ‌ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُهُمۡ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَـبِّـئُـهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿159﴾
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے ۔
ان الذين فرقوا دينهم و كانوا شيعا لست منهم في شيء انما امرهم الى الله ثم ينبهم بما كانوا يفعلون
Indeed, those who have divided their religion and become sects - you, [O Muhammad], are not [associated] with them in anything. Their affair is only [left] to Allah ; then He will inform them about what they used to do.
Be-shak jin logon ney apney deen ko juda juda ker diya aur giroh giroh bann gaye aap ka unn say koi talluq nahi bus unn ka moamla Allah Taalaa kay hawalay hai. Phir inn ko inn ka kiya hua jatla den gay.
۔ ( اے پیغمبر ) یقین جانو کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے ، اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے حوالے ہے ۔ پھر وہ انہیں جتلائے گا کہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔
وہ جنہوں نے اپنے دین میں جُدا جُدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہوگئے ( ف۳۳۵ ) اے محبوب ! تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کرتے تھے ( ف۳۳٦ )
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ، 141 ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے ، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ۔
بیشک جن لوگوں نے ( جدا جدا راہیں نکال کر ) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ ( مختلف ) فرقوں میں بٹ گئے ، آپ کسی چیز میں ان کے ( تعلق دار اور ذمہ دار ) نہیں ہیں ، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :141 خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، اور آپ کے واسطہ سے دین حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور رب مانا جائے ۔ اللہ کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور ان وسیع اصول و کلیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے ۔ یہی دین تمام انسانوں کو اول یوم پیدائش سے دیا گیا تھا ۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشات نفس کے غلبہ سے ، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی ۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے ۔ خود ساختہ قوانین بنائے ۔ جزئیات میں موشگافیاں کیں ۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا ۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا ۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوع انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی ۔ اب جو شخص بھی اصل دین حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کرلے ۔
اہل بدعت گمراہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے شیئی تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور نے فرمایا وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس امت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ حضرت ابو ہریرہ کا قول ہو ۔ ابو امامہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں مراد اس سے اہل بدعت ہے ۔ اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضور جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ ) 42- الشورى:13 ) ہے ایک حدیث میں بھی ہے کہ ہم جماعت انبیاء علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا جیسے اور آیت میں ہے کہ مومنوں ، یہودیوں ، صابیوں اور نصرانیوں میں مجوسیوں میں مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔