Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿161﴾
آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ ایک دین مستحکم ہے جو طریقہ ہے ابراہیم ( علیہ السلام ) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے ۔
قل انني هدىني ربي الى صراط مستقيم دينا قيما ملة ابرهيم حنيفا و ما كان من المشركين
Say, "Indeed, my Lord has guided me to a straight path - a correct religion - the way of Abraham, inclining toward truth. And he was not among those who associated others with Allah ."
Aap keh dijiye kay mujh ko meray rab ney aik seedha raasta bata diya hai kay woh aik deen mustehkum hai jo tareeqa hai ibrahim ( alh-e-salam ) ka jo Allah ki taraf raksoo thay. Aur woh shirk kerney walon mein say na thay.
۔ ( اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے ، ابراہیم کا دین ۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا ، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے ۔
تم فرماؤ بیشک مجھے میرے رب نے سیدھی راہ دکھائی ( ف۳۳۸ ) ٹھیک دین ابراہیم کی ملّت جو ہر باطل سے جُدا تھے ، اور مشرک نہ تھے ( ف۳۳۹ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے ، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ، ابراہیم ( علیہ السلام ) کا طریقہ 142 جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔
فرما دیجئے: بیشک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے ، ( یہ ) مضبوط دین ( کی راہ ہے اور یہی ) اﷲ کی طرف یک سو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم ( علیہ السلام ) کی ملت ہے ، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :142 ”ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ“ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے ۔ اگرچہ اس کو موسیٰ علیہ السلام کا طریقہ یا عیسیٰ علیہ السلام کا طریقہ بھی کہا جا سکتا تھا ، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف دنیا نے یہودیت کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف مسیحیت کو منسوب کر رکھا ہے ، اس لیے ”ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ“ فرمایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی اور عیسائی ، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں ، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے ۔ نیز مشرکین عرب بھی ان کو راست رو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انہیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بت پرست ۔
بے وقوف وہی ہے جو دین حنیف سے منہ موڑ لے ورنہ دین اسلام قدیمی ہے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے ۔ ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بےوقوف ہو اور آیت میں ہے اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے ، ابراہیم علیہ السلام اللہ کے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ، پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا یہ یاد رہے کہ حضور کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہیں اس لئے کہ حضور کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ، اسی لئے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے حدیث ( اصبحنا علی ملتہ الاسلام وکلمتہ الاخلاص و دین نبینا و ملتہ ابراہیم حنیفا و ما کان من المشرکین ) یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے حضور علیہ السلام سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جو یکسوئی اور آسانی والا ہے ، مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہودیہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیح کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن حضور نے جب دو بھیڑے ذبح کئے تو انی وجھت الخ ، کے بعد یہی آیت پڑھی ، آپ ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لئے کہ یوں تو ہر نبی اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ، سب کی دعوت اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 43- النحل:16 ) یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) 43- النحل:16 ) ملت ابراہیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ، وہ دنیا میں بھی برگزیدہ رب تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعدار بن جا اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمیں کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ پس تم اسلام ہی پر مرنا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے یا اللہ تو نے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتداء میں پیدا کرنے والا تو ہی ہے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل رکھا ہے ، اللہ! ہمیں ظالموں کے لئے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے اور آیت میں فرمان باری ہے ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5- المآئدہ:44 ) ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی اور احبار کو بھی اور فرمان ہے آیت ( وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ) 5- المآئدہ:111 ) میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو ۔ یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ حضور کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی اور اس پاک دین کا جھنڈا ابدالآباد تک لہراتا رہے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، بھائیوں کی ایک قسم تو علاقی ہے جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیافی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جدا گانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ بھی ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو ۔ پس کل انبیاء کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے ۔ اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے بعد نماز میں ( انی وجھت ) اور یہ آیت پڑھ کر پھر یہ پڑھتے ( اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی وانا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی لا حسن الاخلاق لا یھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیئھا لا یصرف عنی سیئھا الا انت تبارکت و تعالیٰت استغفرک واتوب الیک یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے ( مسلم )