Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَ لَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ بِالرُّسُلِ‌ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ‌ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَهۡوٰٓى اَنۡفُسُكُمُ اسۡتَكۡبَرۡتُمۡ‌ۚ فَفَرِيۡقًا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ‏ ﴿87﴾
ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے ( حضرت ) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی ۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی ، تم نے جھٹ سے تکبر کیا ، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا ۔
و لقد اتينا موسى الكتب و قفينا من بعده بالرسل و اتينا عيسى ابن مريم البينت و ايدنه بروح القدس افكلما جاءكم رسول بما لا تهوى انفسكم استكبرتم ففريقا كذبتم و فريقا تقتلون
And We did certainly give Moses the Torah and followed up after him with messengers. And We gave Jesus, the son of Mary, clear proofs and supported him with the Pure Spirit. But is it [not] that every time a messenger came to you, [O Children of Israel], with what your souls did not desire, you were arrogant? And a party [of messengers] you denied and another party you killed.
Hum ney ( hazrat ) musa ko kitab di aur inn kay peechay aur rasool bhejay aur hum ney ( hazrat ) essa ibn-e-marium ko roshan daleelen din aur rooh-ul-qudus say unn ki taeed kerwaee. Lekin jab kabhi tumharay pass rasool woh cheez laye jo tumhari tabiyaton kay khilaf thi tum ney jhat say takabbur kiya pus baaz ko to jhutla diya aur baaz ko qatal bhi ker dala.
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے ۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی ۔ ( ٥٩ ) پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے ؟ چنانچہ بعض ( انبیاء ) کو تم نے جھٹلایا ، اور بعض کو قتل کرتے رہے ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی ( ف۱٤٦ ) اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے ( ف ۱٤۳ ) اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں ( ف۱٤٤ ) اور پاک روح سے ( ف۱٤۵ ) اس کی مدد کی ( ف۱٤٦ ) تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان ( انبیاء ) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو ۔ ( ف۱٤۷ )
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی ، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے ، آخر کار عیسٰی ابنِ مر یم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی ۔ 93 پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی ، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا!
اور بیشک ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو کتاب ( تورات ) عطا کی اور ان کے بعد ہم نے پے در پے ( بہت سے ) پیغمبر بھیجے ، اور ہم نے مریم ( علیھا السلام ) کے فرزند عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو ( بھی ) روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید ( اور مدد ) کی ، تو کیا ( ہوا ) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ ( احکام ) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم ( وہیں ) اکڑ گئے اور بعضوں کو تم نے جھٹلایا اور بعضوں کو تم قتل کرنے لگے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :93 ” روح پاک“ سے مراد علم وحی بھی ہے ، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ روح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا ۔ ”روشن نشانیوں“ سے مراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالبِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں ۔
خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5 ۔ المائدہ:44 ) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا ، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا ، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے ۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26 ۔ الشعرآء:193 ) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا ابو ہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر ۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمھارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشوتں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ) 42 ۔ الشوری:52 ) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی ۔